احوال عالم اور خطبہ حجۃ الوداع کا انسانیت نوازپیام

نبی رحمت سیدنامحمدرسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ سے پہلے انسانیت ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی،ظالموں کے آ ہنی پنجے مظلوم انسانوںکا گلا گھونٹ رہے تھے اوروہ دردوکرب سے تڑپنے سسکنے اوردم توڑنے پر مجبور تھے،انسانیت ،اخوت ،بھائی بندی اورانسانی مساوات ،ہمددی وغمخواری ،دردمندی وجگرسوزی،محبت والفت،رأفت ورحمت جیسے الفاظ اپنا معنی ومفہوم کھوچکے تھے ۔سماج نے انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کررکھا تھا ،قوانین وضوابط بھی ہر طبقے کیلئے جداجداتھے ،سماج کے مزعومہ بڑے طبقات کیلئے نرم قوانین مدوّن تھے انکی طرح اگرکوئی کمزورطبقہ کا انسان کسی جرم کا مرتکب ہوتا تووہ کڑی سزاکا مستحق ہوتا،دنیا بھرکا یہی مزاج تھا خاص طورپر ہندوستان کی حالت بڑی قابل رحم تھی ،ہندوانہ سماج انسانو ں کو چاردرجوں میں تقسیم کررکھا تھا سب سے اعلی درجہ والے برہمن کہلاتے،چھتری دوسرے درجہ پر تھے ،ویش اورشودرکا نمبرتیسرااورچوتھا تھا ۔انکے علاوہ اوربھی بہت سے طبقات تھے ان میں جونچلی ذات میں شمارکئے جاتے تھے انکونہ تواونچے درجہ والے شہریوں  کے ساتھ شہرمیں رہنے کا حق تھا نہ ہی اونچی ذات والوں کے قدم سے قدم ملا کر چل سکتے تھے ، نہ ان کے بازو برابربیٹھنے کے روادار تھے نہ ان کی مندروں اورعبادت گاہوں کا وہ رخ کرنے کاکوئی تصور کرسکتے تھے ،مذہبی کتابو ں کوہاتھ لگا نا تو بڑی بات ہے اگرغلطی سے ان کی مذہبی کتاب کے کچھ کلمات نچلی ذات والوں کے کان میں پڑجاتے تو سیسہ پگھلاکرانکے کانوں میں ڈال دیا جاتا، پوراسماج انسانی بے احترامی کا شکارتھا ، بعض مذاہب عورت کو انسان ماننے کیلئے تیار نہیں تھے ،میراث میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں تھا خود عرب کا یہ حال تھا کہ وہ لڑکیوں کی پیدائش کو اپنے لئے عارسمجھتے تھے،اسلئے انکو زندہ درگورکر دیا جاتا تھا ،

عورتیں مخصوص ایام میں معاشرتی سہولتوں سے محروم کردی جاتی تھیں ،غلاموں اورباندیوں کی حیثیت تو جانوروں سے بدتر تھی ،ان کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں تھی اپنے آقاؤں کے رحم وکرم پر ان کی زندگی کا دارومدار تھا ، آقاؤں کو حق تھا کہ ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کریں،ظلم وستم کی اگروہ حد پارکردیتے تب بھی کوئی ان کا ہاتھ نہیں تھام سکتا تھا ، سودخوری کا چلن عام تھادولت مند طبقہ غریب افرادکا خون چوستا اورقرض اداکرنے میں کچھ کوتاہی ہوتی تو ان کے ساتھ وحشیا نہ سلوک کیا جاتا،سودی نظام نے انسانیت کو اپنے ظالمانہ شکنجے میںکَس لیا تھا،بادشاہوں کوتو گویا سر خاب کے پر لگے تھے کہ ان کو وہ رتبہ دیا جاتا تھا جوصرف اورصرف خالق کائنات اورسب کے مالک وخالق اللہ سبحانہ کو حاصل ہے،افسوس ان کی عبادت کی جاتی اوران کو سجدہ کیا جاتا تھا ۔ایسے نا خوشگوارغیرانسانی احوال میں رسول اکرم سیدعالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ ہوئی، آپؐ نے ان سارے اوہام وخرافات ،ظالمانہ رسوم ورواجات کی بیخ کنی فرمائی ،انسانو ںکو پھر سے انکا کھویا ہوا مقام واپس دلایا ،نبوت کی پوری تیئیس سالہ زندگی اس کی شاہد عدل ہے ۔آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے چمنستان انسانیت مرجھاگیا تھا، بہاریں خزاں آلودتھیں آپﷺ تشریف لائے توخزاں کا خاتمہ ہوگیا اورپھرسے سارا عالم انسانی سماج کیلئے بہار آفریں بن گیا،کائنات ارضی کا حسن انسانوں کے درمیان عدل وانصاف ،انسانی اعلی اخلاق وکردارکی وجہ قائم رہ سکتاہے ،جاہلانہ سماج نے کائنات کے اس حسن کو چھین لیا تھا آپ ﷺ کی تشریف آوری نے پھرسے دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیا،توحید باری ،وحدت انسانیت کے پیام کو ایسے عام فرمایاکہ ساراانسانی معاشرہ محبت والفت ،رأفت و رحمت،ہمدردی ومہربانی ، دلداری وغمخواری کا گہوارہ بن گیا۔جہاں خلوص ومحبت کے چشمے پھوٹ رہے تھے ،پیاروالفت کے دریا بہہ رہے تھے۔موجودہ ترقی یافتہ سماج جاہلانہ سماج سے کچھ پیچھے نہیں ہے ا س دورترقی میں بھی وہی کچھ اوہام وخرافات اورتوہمانہ اعتقادات عام ہیں جودورجاہلیت کی پہچان تھیں،ظلم ستم، انسانی بے احترامی اورانسانی خون کی ارزانی تودورجاہلیت کو بھی شرمندہ کرہی ہے ،زمین کا وہ کونساحصہ ہے جوانسانی خون سے لالہ زار نہیں،الغرض خون خرابہ ،شروفسادنے سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔اخلاق وکردارکی گراوٹ نے انسان کو خود غرض اوربے رحم بنا دیا ہے ،ایسے انسان جوبظاہر انسانی روپ دھارے ہوئے ہیں لیکن بباطن وہ خون خواردرندوں سے بھی گئے گزرے ہیں،انسان دشمن ظالم طاقتوں نے ظلم کا نام انصاف ،درندگی کانام انسانیت ،حقو ق کی پامالی کانام حقو ق کی پاسبانی ،انسانی جانوں کے اتلاف کو انسانیت نوازی کا نام دیدیا ہے ۔ دہشت گردی کا دنیا سے خاتمہ کرنے کا خوبصورت عنوان دیکرسارے عالم میں وہ دہشت گردی مچائی جارہی ہے کہ الامان والحفیظ ۔الغرض انسان دشمن ،غیرمہذب عناصرنے اپنا نام انسان دوست اورمہذب انسان رکھ لیا ہے ،ان دوست نما دشمنان انسانیت نے ظلم وستم ڈھانے اورانسانی بے احترامی کے ایسے نت نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں

جوجاہلانہ دورکو بھی شرمسار کرہے ہیں۔ اس تناظرمیں نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کا انسانیت نواز خطبہ حجۃ الوداع کوسرمہ بصیرت بنالینے کی ضرورت ہے ،جب سے کائنات بنی ہے زمین سورج کے اطراف گردش کررہی ہے روزوشب کا چکرچل رہا ہے ،خزاں اوربہار کے موسم بھی آرہے ہیںجس سے یہ سرزمین کبھی سبزپوش ہے تو کبھی خس وخاشاک کا منظرپیش کررہی ہے۔اگرکہا جائے کہ آسمان کے نیچے اس زمین پر ایسا کوئی جامع انسانیت نوازپیام نہیں سنا جاسکاتودشمن بھی اس کی تصدیق کرنے پر اپنے آپ کو مجبورپائیگا۔یہ پیام انسا نیت دس ہجری میدان عرفات سے ،دردمندانہ جذبات سے بھرپورقلبی کیفیات کے ساتھ  انسانیت کے سچے ہمدردوبہی خواہ نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکی زبان فیض ترجمان سے آخری حج کے موقع پر نشر ہوا، جسکی گونج آج بھی فضاؤں میں محفوظ ہے،کم وبیش ایک لاکھ سے زائدجانثاران نبوت نے پوری توجہ ،انہماک اورجذبہ شوق کے ساتھ سنا اوراس کے ایک ایک لفظ کو دل نشین کرلیا اوراپنی عملی زندگی میں اسکو سموکر دنیاء انسانیت کو انسانیت نوازی کا بے مثال عملی پیغام دیا۔آپ ﷺ نے ارشادفرما یا ’’اے لوگو!میرے اس پیام کو سنوآنے والے سالوں میں اس مہینہ اوراس جگہ شاید ہی پھر میں تم سے ملاقات کرسکوں،فرمایا کیا تم جانتے ہویہ دن کونسا ہے؟یہ مہینہ کونساہے اوریہ جگہ کونسی ہے  ہر ایک سوال پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سراپا ادب جواب دیا اللہ ورسولہ اعلم اللہ اوراسکے رسول ﷺ بہترجانتے ہیں ،پھرآپ ﷺ نے فرمایا یہ حرمت والادن ہے اوریہ حرمت والاشہرہے اورحرمت والامہینہ ہے ، اورفرمایا اے لوگو! تمہارا خون اورتمہارامال ایک دوسرے پر حرام ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملواوراس کی حرمت ایسی ہی ہے جیسے کہ آج کا دن  یہ مہینہ اوریہ شہر محترم ہے ،کیا میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچادیا ہے؟سبھوں نے بیک آوازاعتراف واقرار کیا ہم سب گواہی دیتے ہیں آپ ﷺ نے منصب نبوت کے حق کو ادافرما دیا اورپوری دردمندی کے ساتھ آپ ﷺ نے پیغام رسالت کے فرض کو پورافرما دیا۔اس پیام میں آپ نے فرمایا کہ جس کسی کے ہاں کوئی امانت ہو اس کوجس نے امانت رکھی ہے اس اصل دارتک پہنچادے ،اورفرمایا جاہلیت کے سودکو آج میں ختم کرتاہوں اس کا کوئی حساب وکتاب نہیں ہوگا،سب سے پہلے میں ہمیشہ کیلئے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سودکوختم کرتاہوں اورآج جاہلیت کے خون خرابے کی رسم بدکومٹا تا ہوں

،اورسب سے پہلے عامربن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کو باطل کرتاہوں ، دورجاہلیت کے جتنے آثارونشانیاں ہیں وہ بھی آج مٹادی گئی ہیں البتہ کعبۃ اللہ کی خدمت اورپانی پلانے کی جوخدمات ہیں وہ علی حالہ برقرار رہیں گی ،قتل عمدکی سزاقصاص ہوگی اورشبہ قتل عمدجیسے کسی لکڑی یا پتھرسے کسی کومارااوروہ مرجائے تواسکی دیت سواونٹ ہوگی ، اے لوگو!تمہاری اس سرزمین (حرم)پر اصنام پرستی اورشیطان پرستی ہر گزنہیں ہوسکے گی شیطان اس سے مایوس ہوچکا ہے ،لیکن وہ اس بات پر رضامند ہے تمہارے اعمال بے قدرہوں یعنی ان کا کوئی ایسا وزن نہ ہو جواللہ کے ہاں ان کو مقبول بنا تاہے ،اورفرمایا تم پر تمہاری عورتوں کا حق ہے اوران عورتوں پر بھی تمہارے حق ہیں، خاص طورپر عورتیں اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کریں کسی ایسے فرد کو شوہر کی اجازت کے بغیرگھرمیں داخل ہونے کا موقع فراہم نہ کریں جن کو شوہر ناپسند کرتے ہیں،اورکوئی فحش کام ان سے سرزد نہ ہو،ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجاتی ہے تومردوں کو ان سے کنارہ کش ہوجانے اوراپنے بستر علحدہ کرلینے کی اللہ نے اجازت دی ہے اس تدبیرسے اس کا علا ج نہ ہوسکے تو ان کو ہلکی پھلکی سزادویہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائیں جب وہ توبہ کرلیتی ہیں اوراطاعت پر آمادہ ہوجاتی ہیں تو عرف ودستورکے مطابق ان کی حقوق کی رعایت رکھو ، کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے کے اسباب مہیا کرو،عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرواورانکے ساتھ عمدہ ،بہتراوراچھا سلوک روارکھوفرمایا یقینا سارے ایمان والے بھائی بھائی ہیں کسی شخص کیلئے اپنے بھا ئی کا مال کھانا جائزنہیں ہاں اگرخوش دلی کے ساتھ ہویعنی کوئی تحفہ وہدیہ دے تواس کا جوازہے اوروہ قبول کیا جاسکتاہے ۔فرمایا میں نے تمہارے درمیان وہ چیزچھوڑی ہے کہ اس کواگرتم مضبوطی سے تھام لواوراس پر عمل پیرا ہوجاؤتو تم کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے ،اوروہ اللہ کی کتاب ہے ۔فرمایا اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اورتمہارا باپ ایک ہے تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہواورآدم علیہ السلام مٹی سے پیداکئے گئے ہیں ،بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ بزرگی والے وہ ہیں جومتقی اورپرہیزگارہیں ،اورفرمایا کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ایک اورروایت میں ہے کسی گورے کو کسی کالے پر اورکسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی وپر ہیزگاری کے یعنی اللہ سبحانہ کہ ہاں فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ، تقوی کے بغیر رنگ ونسل ،خاندان وقبیلہ وغیرہ ہر گزمعیا رفضیلت نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا جوانسانی قافلہ آج یہاں موجودہے اس کا فریضہ ہے کہ وہ اس انسانیت نواز پیام کو غیرموجود دوسرے انسانوں تک پہنچادے ،نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے اس ارشادکی تعمیل اسلام کی امانت اپنے سینوںمیں رکھنے والوں پر ضروری ہے ،انسانیت کا یہ دلنوازپیام عرفات کے میدان میں سننے والوں کی وساطت سے منزل بہ منزل اوروں کے کانوں سے سینوں میں پہنچتے اوردل میں جگہ بناتے ہوئے ہم تک پہنچا ہے ، ہم اس پیام کے پہنچانے کے امین ہیں عملی پیام پہنچانے کے ساتھ تحریری وتقریری طورپر بھی اس پیام کو عام کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،اس پیام رحمت کونظروں میں بساکردلوں میں سماکر انسان دشمن بھی انسان دوست بن سکتے ہیں اس لئے دشمنان انسانیت کو بھی اس سے آگاہ کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔