’’احمدیہ فرقہ کے افراد کو ملک کی مسلح افواج میں بھرتی نہ کیا جائے ‘‘

 

٭ احمدیہ فرقہ میں جہاد کا کوئی تصور نہیں ، خود کو مسلمان نہ کہیں
٭ قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس سنٹر کو قادیانی پروفیسر عبدالسلام سے موسوم کرنے کی مخالفت
٭ نواز شریف کے داماد محمد صفدر کا قومی اسمبلی سے خطاب
اسلام آباد۔ 11 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے نااہل قرار دیئے گئے وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور پی ایم ایل (این) کے قانون ساز محمد صفدر نے آج ملک میں آباد احمدیہ فرقہ (قادیانی) کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس فرقہ کے ’’مصنوعی مذہب‘‘ میں جہاد کا کہیں بھی کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ محمد صفدر جو پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کیپٹن ہیں، نے کل قومی اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان بین مذہبی نظریات کی بنیاد پر عالم وجود میں آیا اور یہی نظریہ اس کی طاقت ہے جبکہ احمدیہ فرقہ ایسے نظریہ اور ملک کے دستور کیلئے ایک خطرہ ہے۔ انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ نے بھی محمد صفدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمدیہ فرقہ ملک کے دستور کے لئے خطرہ ہے اور ان کے (احمدیہ فرقہ) خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے جس کے لئے وہ (محمد صفدر) قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کریں گے جس کے تحت ملک کی مسلح افواج میں احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرتی کرنے پر امتناع عائد کیا جائیگ ا۔ اپنی بات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احمدیہ فرقہ میں چونکہ ’’جہاد‘‘ کا کوئی تصور نہیں لہذا انہیں فوج میں اپنی خدمات انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں جس وقت محمد صفدر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اس وقت پوری اسمبلی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی اور کسی نے بھی ان کے بیان میں رخنہ اندازی کی کوشش نہیں کی۔ یاد رہے کہ محمد صفدر نواز شریف کی دختر مریم کے شوہر ہیں جنہیں پاکستانی سیاست میں نواز شریف کا جانشین تصور کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف خود صفدر کو بھی اعلیٰ سطحی پناما پیپرس معاملے میں بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ قائداعظم یونیورسٹی (QAU) کے فزکس سنٹر کو پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ ان کا تعلق احمدیہ فرقہ سے ہے لہذا ہم نہیں چاہتے کہ ایسے کسی تعلیمی ادارہ کو ان سے موسوم کیا جائے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ فزکس سنٹر کو پروفیسر عبدالسلام سے موسوم کرنے کی منظوری نواز شریف نے ڈسمبر 2016ء میں دی تھی۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نے پانچ پاکستانی پی ایچ ڈی طلبہ کیلئے سالانہ فیلوشپ کی بھی منظوری دی تھی۔ پروگرام پروفیسر عبدالسلام فیلوشپ کہلایا۔ نیوکلیئر فزیسسٹ عبدالسلام کا تعلق احمدیہ فرقہ سے تھا جبکہ 1974ء میں ہی ایک آئینی ترمیم کے بعد اس فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستان میں غیرمسلم کہا جانے لگا۔ محمد صفدر نے اس وقت دائیں بازو کی جماعت اسلامی کے قانون ساز صاحب زادہ طارق اللہ سے خواہش کی تھی کہ موصوف قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس سنٹر کو پروفیسر عبدالسلام سے موسوم کرنے کے خلاف اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کریں۔ جس وقت آئینی ترمیم کے ذریعہ پاکستان میں احمدیہ فرقہ کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا، اس وقت سابق وزیراعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار تھے۔ بعدازاں سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی اس پر عمل آوری کی گئی اور احمدیہ فرقہ کے لوگوں کو خود کو اسلام سے جوڑنے یا مسلم کہنے پر مستوجب سزا قرار دیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ احمدیہ فرقہ کو تبلیغی فرائض انجام دینے سے بھی باز رکھا گیا تھا اور سالانہ حج کیلئے سعودی عرب جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ احمدیہ فرقہ کی تبلیغ کے لئے کسی بھی تشہیری سرگرمیوں پر بھی امتناع عائد کیا گیا تھا۔ اگر پانچ چھ سال قبل کا جائزہ لیا جائے تو احمدیہ فرقہ پر فائرنگ کرنے کے بھی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ مئی 2010ء میں احمدیہ فرقہ کی دو عبادت گاہوں پر کئے گئے حملوں میں 85 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ محمد صفدر کے ذریعہ احمدیہ فرقہ کے خلاف اچانک دیئے جانے والے ان بیانات کو دراصل پناما پیپرس معاملہ میں ان کے ملوث ہونے، گرفتار ہونے اور عدالتی کارروائی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے تاکہ محمد صفدر دائیں بازو کے گروپس کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔