اترکھنڈ ‘ مرکز و بی جے پی کو ہزیمت

اترکھنڈ میں ہریش راوت کی حکومت کو بحال کردیا گیا ہے اور یہاں مرکز کی نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ صدر راج برخواست کردیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق یہ تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہی وہاں ہریش راوت نے ایوان اسمبلی میں اپنی عددی طاقت ثابت کردکھائی ہے ۔ کانگریس کے نو باغی ارکان اسمبلی کو نا اہل قرار دیتے ہوئے وہاں طاقت آزمائی ہوئی تھی جس میں ہریش راوت کو کامیابی ملی ۔ اترکھنڈ میں جو حالات پیش آئے وہ ملک کی جمہوریت کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ خاص طور پر بی جے پی اور مرکزی حکومت نے اس معاملہ میں جو رول ادا کیا ہے وہ ایک ذمہ دار اور حکمران جماعت کیلئے اور ایک وفاقی طرز کی حکومت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کیلئے اترکھنڈ ے حالات ہزیمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ تاثر درست ثابت ہوگیا کہ مرکزی حکومت نے یہاں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو جانچے اور پرکھے بغیر صدر راج نافذ کردیا تھا اوریہ بھی جائزہ نہیںلیا تھا کہ جو حالات وہاں پیدا ہوئے ہیں وہ صدر راج نافذ کرنے کے متقاضی ہیں بھی یا نہیں ۔ یا اگر یہاں صدر راج نافذ کیا جاتا ہے تو قانونی طور پر اس کا جواز پیدا ہوسکتا ہے یا نہیں۔ حالات کا جائزہ لئے بغیر اور اس کے اثرات کو سمجھے بغیر صدر راج نافذ کردینا مرکزی حکومت کا جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تھا اور اس فیصلے کے سیاسی محرکات سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ مرکز کے سامنے چاہے کچھ بھی حالات رہے ہوں لیکن اسے صبر و تحمل سے کام لے کر حالات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہئے تھا اور ہریش راوت کو ایوان اسمبلی میںاپنی عددی طاقت ثابت کرنے کا موقع دئے جانے کے بغیر صدر راج نافذ کردینا ایسا عمل تھا جو درست نہیں تھا اور عدالت نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے ۔ پہلے اترکھنڈ ہائیکورٹ کی جانب سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور پھر مرکز نے اس پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ عدالت نے ابتداء میں اترکھنڈ ہائیکورٹ کے فیصلے پر حکم التوا جاری کیا تھا لیکن بعد میں ہریش راوت حکومت کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ۔

اس فیصلے سے بی جے پی کو یقینی طور نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ بی جے پی کیلئے بھی یہ ہزیمت والی صورتحال ہے ۔ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی ان ریاستوں میں بھی اقتدار حاصل کرنے کیلئے بے چین ہے جہاںکے عوام نے اسے اقتدار نہیں سونپا تھا ۔ بہار میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے جو تگ و دو کی تھی وہ ناکام ثابت ہوئی اور اب اترکھنڈ میں کانگریس کی منتخبہ حکومت کو بیدخل کرکے چور دروازے سے اقتدار ہتھیانے کی اس کی کوشش بھی ناکام ثابت ہوگئی ہے ۔ اس سے بی جے پی کی امیج بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ یہ ایسا عمل ہرگز نہیں تھا جو ایک ذمہ دار اور ملک کی حکمران جماعت کو ذیب دیتا ہو۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے اتر پردیش میں مسائل پیدا کرسکتی ہے جہاں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کیلئے یہاں بہت کچھ داؤ پر ہوگا اور شائد اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اترکھنڈ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اترکھنڈ کے حالات اور جو تبدیلیاں رونماہوئی ہیں وہ بی جے پی کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ جو علاقائی اور چھوٹی جماعتیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے بی جے پی سے اتحاد کے تعلق سے غور کرسکتی تھیں اب وہ اپنے اس خیال پر نظر ثانی کیلئے مجبور ہوگئی ہیں۔ انہیں بی جے پی سے اتحاد کی صورت میں اپنا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اب وہ بی جے پی سے قربت بڑھانے کی بجائے دوریاں برقرار رکھنے کے تعلق سے فیصلہ کرینگی ۔ ان جماعتوں کی سوچ میں تبدیلی بی جے پی کے امکانات متاثر کرسکتی ہے ۔

عوام کے ذہنوں میں بھی اس بات نے گھر کر لیا ہے کہ بی جے پی عوام کی عدالت میں ناکام ہونے کے بعد پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے ۔ یہ کوششیں جمہوری اقدار کے مغائر ہیں اور کم از کم ایک حکمران جماعت کو ایسی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اترکھنڈ کے واقعات سے بی جے پی کیلئے مشکلوں میں ہی اضافہ ہوگا اور اس کے انتخابی امکانات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے ۔ چاہے یہ پانچ ریاستوں میں جاری انتخابی عمل ہو یا پھر آئندہ سال ہونے والے یو پی اسمبلی انتخابات ہوں۔ بی جے پی کو موجودہ حالات میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔