اتراکھنڈ میں کشیدگی ‘ دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کو بھگانے کا نعرہ

دہرادون۔ پیر کے روزشہر کی ایک ہوٹل سے ہندو لڑکی کے ساتھ ایک مسلم لڑکے کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد پیدا ہوئی کشیدگی اور غیر علاقائی مسلمانوں کو بھگانے کے نعرے کے ساتھ ہندو تاجرین کی جانب سے بلائے گئے بند اور کشیدگی کی پیش نظر منگل کے روز تہری گہروال ضلع کے گھنسالی ٹاؤن میں مسلم تاجرین نے اپنی دوکانیں بند رکھیں۔

پیر کے روز مقامی ہوٹل کے روز سے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ 250لوگوں پر مشتمل ہجوم نے ایک مسلم لڑکے کو رنگے ہاتھوں پکڑا ‘ جس کی شناخت ازاد علوی کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس اسٹیشن لے جانے سے پہلے ہجوم نے اس لڑکے کی پیٹائی کی اور گلے میں جوتوں کا ہارڈال کر پریڈ بھی کرایا۔

مذکورہ ہجوم نے مسلم تاجرین کی 13دوکانوں کو بھی نقصان پہنچایا۔لڑکی کو بھی پولیس اسٹیشن لے جانے کے بعد والدین کے حوالے کردیاگیا۔ علوی کا تعلق اترپردیش کے ضلع بجنور سے ہے‘ وہ یہاں پر اپنے گھر والوں کے ساتھ کرایہ کے مکان میں رہتا ہے اور گھنسالی مارکٹ میں وہ’ زلف تراش ‘کاکام کرتا ہے۔

گھنسالی جو ایک چھوٹا قصبہ ہے یہاں پر فرقہ وارانہ کشیدگی کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ علاقے میں تین سو کے قریب دوکانیں ہیں جس میں پچیس سے تیس مسلم تاجرین کی دوکانیں شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اترپردیش سے ہے۔

اتراکھنڈ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا رحجان حالیہ دنوں میں بڑھا ہے۔ جولائی2017میں ہندو مسلم کشیدگی اس وقت ہوئی تھی جب ایک مقامی مسلم لڑکے نے مبینہ طور پرکیدرناتھ مندر کی ایک قابل اعتراض تصوئیر فیس بک پر شیئر کی ۔

جولائی2017میں ایک او رواقعہ میں موسوری کے اندر افرقہ وارانہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب ایک مقامی کشمیری تاجر نے مبینہ طور پر سوشیل میڈیا میں پاکستان کا قومی گیت شیئر کیاتھا۔

اترپردیش کے ضلع بجنور سے تعلق رکھنے والے فرنیچر کی دوکان کے مالک ایک مسلم تاجر ذوالفقار منصوری نے کہاکہ’’پہلی مرتبہ پیش ہوئے اس قسم کے غیر متوقع واقعہ کی وجہہ سے ہم خوف کے عالم میں ہیں۔

ہم نہیں جانتے کہ عام طور پر جس طرح کا کاروبار ہم کرتے ہیں اس کے اہل رہیں گے یا نہیں‘‘۔ منصوری جو جولائی 25سے بجنور کے اپنے مکان میں ہیں ‘ نے دعوی کیا ہے کہ پیر کے روز ہجوم نے ان کی دوکان کا قفل توڑ کر ان کے تمام فرنیچر کو نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’ میں نے واقعہ کے متعلق میرے ساتھ ہندو تاجرین کو جانکاری دی جو ہمیشہ میری مدد کرتے ہیں۔ پیر کے واقعہ کے بعد سے ہم خوفزہ کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگ ہمیں علاقے سے نکالنے کا مطالبہ کررہے ہیں‘‘۔ مقامی ہندو تاجر اور دائیں بازو کارکن صاحب سنگھ کومین نے مقامی لوگ نہیں چاہتے کہ غیر علاقائی لوگ شہر میں آکر بسیں۔انہوں نے کہاکہ’’ یہاں پر 80سے 90مسلم افراد ہیں جو باہری ہیں۔

جن میں کچھ منشیات میں ملوث ہیں اورعلاقے کی بھولی بھالی ہندو لڑکیوں کو پھنسانے کاکام کررہے ہیں‘‘۔ گھنسالی کے سب ڈویثرنل افیسر ڈاکٹر چوہان نے کہاکہ علاقے کے حالات قابو میں ہیں اور پولیس کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ’’ ہم مسلم تاجرین کو بھروسہ دلاتے ہیں کہ وہ اپنی دوکانیں کھولیں ڈرنے او رگھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘ ان کی حفاظت کریں گے ‘‘۔مقامی ہاوز افیسر کشن تمٹا نے کہاکہ ائی پی سی کے تحت علومی پر عصمت ریزی کا مقدمہ درج کیاگیا ہے ‘ واضح رہے کہ لڑکی نابالغ ہے۔