اب پان شاپ کھولئے

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھرکو میں

اب پان شاپ کھولئے
ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حصول روزگار کیلئے بی جے پی کی جانب سے نایاب مشورے دئے جارہے ہیں۔ پہلے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے نوجوانوں کو پکوڑے تلنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ پکوڑے تلتے ہوئے یومیہ 200 روپئے کمائیںاور گھر چلائیں۔ ابھی اس مسئلہ پر نوجوانوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے تو اب تریپورہ کے چیف منسٹر بھی غلط وجوہات کی بنا پر سرخیوں میں آنے لگے ہیں۔ وہ نت نئے اور متنازعہ بیانات دیتے ہوئے ایک عجیب طرح کی الجھن پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے تو چیف منسٹر تریپورہ بپلب دیب نے اب نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے پیچھے حصول روزگار کیلئے چکر لگانے کی بجائے پان شاپ کھولیں اور گائے پالیں۔ انہوں نے ایک عجیب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب گائے کا دودھ 50 روپئے فی لیٹر کے حساب سے بک رہا ہے اور اگر نوجوان گائے پالیں تو دس سال میں وہ دس لاکھ روپئے بینک بیالنس بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے وعدے کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی اور اس کے قائدین اب نوجوانوں کو روزگار کیلئے سیاسی جماعتوں کے پیچھے چکر کاٹنے سے روکنے لگے ہیں اور انہیں نت نئے مشورے دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ وہ یا تو پکوڑے تل کر روزگار حاصل کریں یا پھر اب پان شاپ کھولیں۔ یہ ایسے مشورے ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں میں برہمی کی لہر پیدا ہور ہی ہے اور شائد یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پکوڑے تلنے اور پان شاپ کھولنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔ ایسے مشوروں کیلئے نت نئے جواز پیش کئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حکومتوں پر انحصار نہ کیا جائے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی جے پی اور اس کے قائدین کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اب انہیں اقتدار سے کوئی بیدخل نہیں کیا جاسکتا اس لئے نوجوانوں کو اس طرح کے مشورے دیتے ہوئے بدظن کیا جار ہا ہے ۔ پہلے تو بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے اور سالانہ کروڑوں نوجوانوں روزگار دیا جائے گا ۔ ان کیلئے اچھے دن لائے جائیں گے اور انہیں خوشحال زندگی فراہم کی جائے گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کی بجائے انہیں متنازعہ مسائل میں الجھا دیا گیا ہے ۔ ان کے ذہنو ں کو فرقہ پرستی کے ذریعہ پراگندہ کیا جار ہا ہے ۔ انہیں دوسرے طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے ان سے نفرت کا درس دیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان کی روایات کو داغدار کیا جا رہا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پان شاپ کھولنے کے مشورے دئے جار ہے ہیں۔ پکوڑے تلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ کیا چیف منسٹر تریپورہ اس بات کا کوئی جواز فراہم کرسکتے ہیں کہ پان شاپ کھولنے سے کسی گھر کا گذر بسر آسان ہوجائیگا ؟ ۔ کیا پان شاپ کا کاروبار کوئی صحت مند سماج کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ پہلے ہی ملک میں گٹکھے اور تمباکو کے خلاف مہم چل رہی ہے اوراس مہم کو مزید مستحکم کرنے اور اس تعلق سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا کرنے کی بجائے الٹا نوجوانوں کو پان شاپ کھولنے کا مشورہ دیتے ہوئے ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جار ہا ہے ۔ بی جے پی اور اس کے چیف منسٹرس یا وزرا عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے تعلق سے تیقن دینے اور نوجوانوں کو مطمئن کرنے کی بجائے انہیں ایسے کاروبار کے مشورے دے رہے ہیں جن میں کوئی مستقبل نہیں ہوسکتا اور اس سے سماج کی بنیادیں مستحکم ہونے کی بجائے مزید کھوکھلی ہوسکتی ہیں۔ حکومتوں کی ذمہ داری سماج اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی ہیں کھوکھلی کرنے کی نہیں۔ جو منطق اس طرح کے مشوروں کیلئے اختیار کی جا رہی ہے وہ ہندوستان اور ہندوستان کے نوجوانوں کیلئے یکسر مختلف اور نئی ہے ۔
اب جبکہ ایک ریاست کے ذمہ دار چیف منسٹر کی جانب سے ایک انتہائی مضحکہ خیز مشورہ دیا گیا ہے تو بی جے پی کے اعلی قائدین اور خاص طور پر صدر امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ انہیں ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کے تعلق سے حکومت کے منصوبوں اور پالیسیوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بتانا چاہئے کہ نوجوان سرکاری ملازمتوں کی امید رکھیں یا پھر چھوٹے موٹے ٹھیلہ بنڈی کے کاروبار کرتے ہوئے اپنا گذر بسر کریں۔ بی جے پی کے قائدین اور حکومت کے ذمہ داروں کو یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے جو کروڑ ہا روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوگا اور کیوں اس کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔ اگر یہ وعدے پورے نہیں کرسکتے تو پھر مستقبل عوام اس پارٹی اور اس کے قائدین اور ذمہ داروں کے وعدوں پر اعتبار کیوں کریں ؟ ۔ یہ وضاحتیں بہت ضروری ہیں اور عوام کو اس کا جواب دیا جانا چاہئے ۔