آسیہ بی بی کو سرسید کے چشمہ سے دیکھیں۔

آہانت کے معاملے میں سپریم کورٹ نے عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو بری کردیا ہے ‘ پھر بھی پاکستان کے سخت گیرمذہبی لوگوں اس کو سزا دینے پر آمادہ ہیں۔

ولیم میر نامی ایک شخص نے ’’ دی لائف آف محمدؐ‘‘ کے نام سے ایک متنازعہ کتاب لکھی جس میں اس نے پیغمبراسلام پر قابل اعتراض تبصرہ کیا۔

دنیابھر میں اسکے خلاف زبردست احتجاج ہوا اور سرسید احمد خان کے دل پر بھی اس کا گہرا اثرہوا۔ سال1870میں سرسید نے انگلینڈکادورہ کیا اور اس برٹش میوزیم میں گئے مضامین کاحوالہ دے کر میئر نے پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں گستاخانہ کلامات ادا کئے تھے۔

بانی اسلامؐ کے نا م پر کی گئی گستاخی کا جواب دیا اور اس کو کئی اخباروں او رسالوں نے شائع بھی کیا۔

ان کایہ بیان بعد میں’ خطبات محمد‘کے نام سے شائع کتاب میں شامل ہوا ۔میئر کو آخری کار اپنی شیطانی حرکت پر پشیمانی ہوئی اوروہ معافی مانگنے پر مجبورہوگیا۔واقعہ دیڑھ سو سا ل سے زائد پرانا ہے لیکن آج بھی کافی اہم ہے۔

اسے پاکستان کی متنازعہ آسیہ بی بی معاملے سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے

۔ سرسیدکے نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرنے والے پاکستانی لوگ ان کے ان نظریات اور اصولوں کو عین خلاف کام کررہے ہیں۔

وہ بھی اس وقت جب سپریم کورٹ نے ثبوتوں کی بنیاد پر آہانت آمیز الفاظ کا استعمال کرنے کے الزامات سے عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو بری کردیاہے۔

یعنی ان پر الزام تک ثابت نہیں ہوسکا ہے۔

پھر بھی پاکستان کے سخت گیر لوگ قانون سے اوپر اٹھ کر آسیہ بی بی کوموت کی سزا دینے پر آمادہ ہیں۔آسیہ بی بی کی زندگی کو درپیش خطرات کے پیش نظرانہیں کسی خفیہ مقام پر رکھا گیاہے‘ ڈر کے مارے ان کے وکیل سیف الملک کو بھی پاکستان چھوڑ کر ندر لینڈس میں پناہ لینا پڑا ہے۔

پاکستان میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ جس ملک کی بنیاد مذہب او رنفرت پر رکھی گئی ہو اس سے اور کیاامید کی جاسکتی ہے؟۔

دراصل پاکستان میں اس طرح کے معاملات کے پس پردہ بدلے کی منشا ہوتی ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ تک جاتے جاتے ملزمین بری ہوجاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں اور نچلی عدالتیں کس قدرقدآمت پسندوں کے دباؤ میں کام کرتی ہیں