آسان سی ترکیب …!

شیر شاہ سوری بہت عقلمند اور بہادر بادشاہ تھا۔ یہی وہ بہادر بادشاہ تھا جس نے ہمایوں کو شکست دے کر ملک سے نکال دیا تھا ۔ جس زمانے میں شیر شاہ بادشاہ نہیں بناتھا ۔ صرف ایک فوجی افسر تھا تو اسے بابر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا ، کھانے کا وقت قریب تھا اس لئے بابر نے نوکروں کو حکم دیا کہ دسترخوان بچھادیا جائے ۔ دسترخوان بچھ گیا تو بابر اور اس کے سارے مہمان کھانے کیلئے بیٹھ گئے ۔ دسترخوان پر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے ۔ انہیں کاٹ کر کھانا تھا شیرشاہ نے کھانا چاہاتو دیکھا کہ دسترخوان پر جتنے چاقو موجود تھے وہ سب کے سب دوسروں کیلئے تھے اور اب اس کیلئے کوئی چاقو نہیں رہا ۔

اس نے ایک نوکر کو بلایا اور اسے چاقو لانے کیلئے کہا نوکر چلاگیا ۔ نوکر کو بہت کام تھے ۔ وہ چاقو لانا بھول گیا ۔ شیر شاہ کی بجائے کوئی اور ہوتا تو دوبارہ نوکر کو بلاتا یا گوشت کھانے کا خیال ہی دل سے نکال دیتا ۔ مگر اسے یہ دنوں باتیں ناپسند تھیں ۔ وہ گوشت بھی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس نے یہ کیا کہ فوراً اپنا خنجر نکالا اور بڑی آسانی سے گوشت نکال نکال کر کھانے لگا ۔ بابر بادشاہ نے جو اسے خنجر سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے دیکھا تو بولا ! شیر شاہ زیادہ دیر تک فوجی افسر نہیں رہے گا ۔ ایک دن بادشاہ بن جائے گا ۔ کیونکہ یہ بہت بلند ہمت انسان ہے ۔ بابر بادشاہ نے شیرشاہ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا ، بالکل صحیح ثابت ہوا ۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بن گیا اور بادشاہ بھی اتنا زبردست کہ ہمایوں بادشاہ بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ ہندوستان تو ایک وسیع ملک ہے ، اس میں صرف ہمایوں بادشاہ نہیں تھا ۔ کئی راجے بھی تھے ۔ ان میں راروارڈ کا راجہ رائے مال دیو ، بڑا طاقتور تھا ۔ اس کے پچاس ہزار سپاہی تھے اور ہر ایک سپاہی کے پاس لڑائی کا پورا پورا سامان تھا ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مال دیو اپنی ساری فوج لے کر اجمیر میں پہونچ گیا ۔ خیال یہ تھا کہ وہ آگے بڑھ کر شیر شاہ کے سپاہیوں پر حملہ کر دیگا ۔

شیر شاہ چاہتا تھا کہ اپنے سپاہیوں کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار کھڑی کردے ۔ تاکہ دشمن آسانی سے ان پرحملہ نہ کرسکے اور اسی طرح وہ لڑائی کی تیاری بھی کرلے ۔ مضبوط دیوار بنانے کا خیال بہت اچھا تھا ۔ مگر ایک خاص مشکل یہ پیش آئی کہ اس کی فوج کے ارد گرد جو زمین تھی وہ ریتیلی تھی ۔ یعنی اس زمین میں ریت ملی ہوئی تھی ۔

ریت والی زمین پر دیوار نہیں بنائی جاسکتی ۔ دیوار بنانے کیلئے ضروری تھا کہ ریت کو الگ کردیا جائے ۔ لیکن ریت کو الگ کیسے کیا جائے وہ تو بہت زیادہ تھی کئی آدمی ایک دو ماہ تک لگے رہتے جب کہیں جاکر یہ کام ہوسکتا تھا اور شیر شاہ کے پاس اتنا وقت کہاں تھا ۔ وہ تو بہت جلدی ریت دور کرنا چاہتا تھا ۔ اس کیلئے کوئی طریقہ اسے سوجھ ہی نہیں رہا تھا ۔ اس نے اپنے خاص آدمیوں کو بلاکر کہا ! تم لوگوں کو معلوم ہے کہ دشمن کی نیت یہ ہے کہ ہم پر حملہ کردیا جائے ہمارے بچاؤ کی صورت میں یہ ہے کہ اسی وقت اپنے سپاہیوں کے چاروں طرف ایک مضبوط دیوار کھڑی کردی جائے ۔ مگر ہم ایسا نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ مٹی میں ریت کثرت سے ملی ہوئی ہے ۔ سوچ کر بتاؤ ہمیں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ شیر شاہ کے آدمیوں کو یہ بات تو بہت پسند آئی ۔ مگر ریت کس طرح نکالی جائے یہ معاملہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ ایک نے کہا زیادہ سے زیادہ مزدوروں کو اکٹھا کیا جائے اور انہیں ریت نکالنے کے کام پر لگادیا جائے ۔ دوسرا بولا ! ہمیں خود آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ تیسرے نے کہا ہم دشمن کے آنے کا انتظار کرتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کیا کرتا ہے ۔

شیر شاہ کو کوئی بھی بات پسند نہیں تھی ۔ دیوار بنانے کا خیال سب سے اچھا تھا ۔ مگر اس کیلئے سب سے پہلا کام یہ تھا کہ ریت نکال دی جائے اور اس کا طریقہ کسی نے بھی نہیں بتایا تھا ۔ شیر شاہ نے سب کو رخصت کردیا اور پریشانی کی حالت میں اپنے خیمے میں لوٹ آیا ۔ اسے بیٹھے ہوئے کچھ دیر ہی گذری ہوگی کہ اس کا پوتا وہاں آگیا یہ ایک کم عمر لڑکا تھا اور اس کا نام محمود خان تھا ۔ شیر شاہ کو اپنے پوتے سے بڑی محبت تھی ۔ جب بھی اسے فرصت ملتی تھی اس سے ضرور کھیلتا تھا اور اس سے باتیں کرکے بڑا لطف لیتا تھا،مگر اس وقت اسے اپنا پوتا بھی اچھانہ لگا کیونکہ وہ پریشان تھا ۔ اس کا پوتا محمود خان ایک ہوشیار لڑکا تھا ۔ اس نے سمجھ لیا کہ دادا کسی بات پر غور کر رہے ہیں اور کسی مشکل میں گرفتار ہیں ۔ آگے بڑھ کر بولا بابا جان کیا بات ہے ۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟ کچھ نہیں ۔ جاؤ باہر جاکر کھیلو ! شیرشاہ نے کہا نہیں دادا جان مجھے بتائیں ! شیر شاہ کو غصہ آگیا ۔ تمہیں کیا بتاؤں دفع ہوجاؤ ۔ محمود خان پر دادا کی جھڑک کا کوئی اثر نہ ہوا بولا ! بابا جان بتاؤ ، اچھے بابا جان ! اچھے بابا جان ! تم سن کر کیا کروگے ۔ شیر شاہ نے پوچھا ! میں آپ کی مشکل دور کروں گا ۔ محمود خان نے کہا ۔ شیرشاہ نے اسے اپنی مشکل بتادی ۔ واہ یہ بھی کوئی مشکل ہے بابا جان ! یہ تو ایک لمحے میں دور ہوسکتی ہے ۔ شیر شاہ نے اس کی طرف حیران ہوکر دیکھا ۔ محمود خان کہنے لگا ۔ بابا جان بھلا اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے ۔ آپ کی فوج میں ہزاروں سپاہی ہیں اور ہر سپاہی کے پاس چیزیں رکھنے کیلئے ایک تھیلا ہے ۔ آپ ہر سپاہی سے کہئے کہ وہ تھیلا خالی کرکے اس میں ریت بھرکر لے آئے ۔ ایک ہی دن میں وہاں سے ریت نکل جائے گی ! اس کے بعد آپ دیوار بنالیں ۔ شیر شاہ یہ تجویز سن کر اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنے پوتے کو سینے سے لگالیا ۔