آسام میں ڈی ووٹرز شہریو ں کا معاملہ: دوسری لسٹ سے پہلے شکوک وشہبات میں اضافہ

ایس ائی او کی جانب سے آسامی باشندوں پر ڈاکیومنٹری فلم ریلیز‘ این آر سی کی لسٹ میں شامل ہونے کے لئے شہریوں کو پریشان کیاجارہا ہے۔ شرکاء
نئی دہلی۔آسام میں ڈی ووٹرز (مشکوک شہریوں) کو لے کر 30جون کو آنے والی دوسری لسٹ سے پہلے شکوک وشبہات بڑھتے جارہے ہیں۔ این آر سی کی پہلی ڈرافٹ لسٹ31ڈسمبر 2017جو شائع ہوچکی ہے جبکہ دوسری لسٹ30جون کو شائع ہونی ہے۔

آج یہاں پریس کلب آف انڈیا میں اسلامک اسٹوڈنٹ آف آرگنائزیشن کے عہدیدارن نے آسام میں ہورہی صورتحال کو لے کر ایک ڈاکیومنٹری فلم جاری کی‘ جس میں آسامی باشندوں کا دردپیش کیا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں آسامی لوگوں کی شہریت سے متعلق کئی سماجی تنظیمیں مقدمات لڑرہی ہیں جس میں این آر سی کی تیاری اوراس میں ہرحقیقی شہری کے نام کی شمولیت سے متعلق مقدمہ جو2ججوں والی بنچ کی عدالت میں ہے۔

آسام میں شہریت کی بنیاد1971کو برقرار رکھنے سے متعلق مقدمہ جو5رکنی آئینی بنچ کی عدالت میں ہے اور مذکورہ بالا مقدمہ شامل ہے جو فی الحال ایک رکنی بنچ کی عدالت میں ہے۔

آج یہاں پریس میٹ میں ایس ائی او کے سکریٹری سید اظہر الدین نے اخبار نویسوں سے گفتگو میں دعوی کیا کہ آنے والی دوسری ووٹرلسٹ میں قریب تیس لاکھ لوگ ڈی ووٹرز کاشکار ہوسکتے ہیں۔

انہو ں نے بتایا کہ پچھلے دونوں ہماری ٹیم نے آسام دورہ کرکے ڈی ووٹرز کاشکار ہوئے کئی خاندانوں سے ملاقات کی اور آج یہ فیکٹ فائنڈگ ویڈیو جاری کیاجارہا ہے۔

انہو ں نے بتایا کہ تمام دستاویزات ہونے کے باوجود آسامی باشندوں کو غیرملکی تسلیم کیا ہے اس میں بیشتر لوگ خودکشی کرچکے ہیں یا پھر ڈ ی ووٹرز ڈیٹنشن کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ این آر سی کو 30جون کو آنے والی فہرست میں آسامی کارکنان وکلاء کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 30لاکھ ڈی ووٹرز متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ فہرست آخری نہیں ہونی چاہئے ‘ بلکہ اگر کچھ شہری باقی رہ جائیں تو انہیں دوبارہ موقع دیاجانا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر کوئی شہری ہے تو اس کو فوری طور پر غیر ملکی تسلیم نہ کیاجائے‘ بلکہ اسے شہری ہونے کے دستاویزات دکھا نے کا موقع دیا جانا چاہئے کیونکہ لاکھوں لوگوں کے سامنے مشکلات کھڑی ہے۔

تنظیم کے قومی سکریٹری جنرل عبدالودود نے کہاکہ آسام میں گذشتہ تین سالوں سے سپریم کورٹ کی زیر نگرانی نیشنل رجسٹرفارسٹیزن کی از سر نو تیاری کاکام جاری ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ انتظامیہ نئے نئے ہدایات کے ذریعہ اس معاملہ کو انتہائی پیچیدہ بناتی جارہی ہے ۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق جن لوگوں کے پاس اپنی شہریت کو ثابت کرنے کے لئے متعینہ دستاویزات ہیں ایسے لوگوں کا نام این آر سی میں شامل کیاجاناچاہے‘ مگر انہیں مختلف طرح سے پریشان کیاجارہا ہے۔

شاہین عبداللہ نے بتایا آسام میں ایسے بہت معاملات سامنے ائے ہیں جس میں فورین ٹریبونل نے ایک بھائی کو ’ڈی ووٹر‘ قراردیا ہے مگر دوسرے بھائی کو ہندوستانی قراردیا ہے اسی طرح بھائی بہن کے معاملے میں ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی ایک شخص کے ’ڈی ووٹر‘ نہیں قراردیاجاسکتا ‘ بلکہ اگر ان کے پاس ہندوستانی ہونے کے دستاویزموجود ہیں تو ان کا نام این آر سی میں شامل ہونا چاہئے۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لواحقین کو این آر سی میں شمولیت سے محروم رکھنا غلط اور ناانصافی ہے۔

عیاں رہے کہ اس وقت آسام میں تقریبا دولاکھ لوگ ایسے ہیں جن کو فورین ٹریبونل نے’ڈی ووٹر‘ قراردیا ہے اب اگر ان لوگوں کے بھائی ‘ بہن‘ بیٹا‘ بیٹی‘ جیسے‘ اہلخانہ وغیرہ کو شمار کیاجائے تو پچاس لاکھ لوگوں کا نام این آر سی میں شمولیت سے محروم ہوجائیگا‘

حالانکہ جن لوگوں کو ڈی ووٹر قراردیاگیا ہے ان میں سے آدھے وہ جن تک نوٹس نہیں پہنچایا اور وہ وقت پر ٹریبونل نہیں پہنچ پائے او ران کی بات سنے بغیر ٹریبونل نے ان پر ڈی ووٹر کی مہر لگادی اور

ان تمام لوگوں کے پاس ابھی ہائی کورٹ او رسپریم کورٹ جاکر ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا موقع ہے اور ان میں بہت سے ایسا کربھی چکے ہیں