آسام میں ’اصلی‘ شہریوں کا قطعی مسودہ جاری، 40 لاکھ افراد کے نام ندارد

چار زمرے (مشکوک ووٹرز، اُن کے وارثین، وہ لوگ جن کے کیس فارینرز ٹربیونلز میں زیردوراں ہیں، اور اُن کی اولاد) شامل نہیں ۔ 28 ستمبر تک اعتراضات کی وصولی

گوہاٹی ، 30 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) آسام میں سخت سکیورٹی کے درمیان نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا دوسرا و قطعی مسودہ جس کا کافی انتظار ہورہا تھا، آج شائع کردیا گیا جس میں جملہ 3.29 کروڑ درخواست گزاروں میں سے زائد از 2.89 کروڑ ناموں کو شامل کیا گیا ہے، رجسٹرار جنرل آف انڈیا سیلیش نے یہاں یہ بات بتائی۔ تاہم، تقریباً 40.07 لاکھ درخواست گزاروں کو اس تاریخی دستاویز میں جگہ نہ ملی، جسے آسامی شناخت کا ثبوت سمجھا جارہا ہے۔ ایک سینئر پولیس آفیسر نے کہا کہ این آر سی اجرائی کے تناظر میں ریاست کے تمام 33 اضلاع میں احتیاطی اقدام کے طور پر ضابطہ فوجداری کے دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکام لاگو کئے گئے ہیں۔ قطعی مسودہ ریاست میں تمام این آر سی سیوا کیندراؤں میں جائزے کیلئے دستیاب ہے۔ درخواست گزاران این آر سی ویب سائٹ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں یا 24×7 ٹول فری نمبروں پر کال کریں (آسام سے 15107 اور بیرون آسام سے 18003453762) اور اپنے 21 ہندسی اپلکیشن رِسیٹ نمبر (ARN) کے حوالے سے تفصیلات معلوم کریں۔ لگ بھگ 40.07 لاکھ درخواست گزاروں کی عدم شمولیت پر تبصرے سے انکار کرتے ہوئے این آر سی اسٹیٹ کوارڈنیٹر پرتیک ہجیلا نے کہا کہ یہ کام سپریم کورٹ کی ہدایات کی مطابقت میں انجام دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چار زمروں کے لوگوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے … مشکوک ووٹرز، اُن کے وارثین، وہ لوگ جن کے کیس فارینرز ٹربیونلز میں زیردوراں ہیں، اور اُن کی اولاد۔ پرتیک نے یہ بھی کہا کہ عوام اس فہرست میں اپنی شمولیت کیلئے تمام سیوا کیندراؤں پر دوبارہ درخواست دے سکیں گے۔ دعوؤں اور اعتراضات کے ساتھ رجوع ہونے کا عمل 30 اگست کو شروع ہوگا اور 28 ستمبر تک جاری رہے گا۔ لوگوں کو اعتراضات پیش کرنے کیلئے معقول گنجائش فراہم کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی واجبی ہندوستانی شہری کو خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ آسام پہلی ہندوستانی ریاست ہے جہاں این آر سی کی فہرست کو 1951ء کے بعد تازہ کیا جارہا ہے تاکہ اصلی ہندوستانی شہریوں کے ناموں کو شامل کیا جاسکے، اور اس کیلئے 24 مارچ 1971ء کی اساسی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پہلا این آر سی مسودہ 1.9 کروڑ ناموں کے ساتھ 31 ڈسمبر اور اِس سال یکم جنوری کی درمیانی شب کے دوران جاری کیا گیا تھا۔ اس وسیع تر عمل کیلئے بنیادی کام کی شروعات ڈسمبر 2013ء میں ہوئی تھی اور اس ضمن میں گزشتہ تین سال کے دوران سپریم کورٹ میں درجنوں سماعتیں منعقد ہوئی ہیں۔ درخواست کا عمل برائے این آر سی مئی 2015ء میں شروع ہوا اور سارے آسام میں 68.27 لاکھ خاندانوں سے جملہ 6.5 کروڑ دستاویزات وصول ہوئے۔ قطعی مسودہ کی اجرائی کے چند منٹوں میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ کام ’’غیرجانبدار اور شفاف‘‘ انداز میں انجام دیا گیا ہے۔ انھوں نے نئی دہلی میں میڈیا والوں کو بتایا کہ کسی کے بھی خلاف سخت کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا، کسی کو بھی خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے (تفصیلی خبر اندرونی صفحہ پر)۔ دریں اثناء چیف منسٹر سرب نند سونوال نے اپنی ریاست کے عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخی دن ہمیشہ اُن کی یادوں میں جاگزیں رہے گا۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ این آر سی کے قطعی مسودہ کی اشاعت کے تناظر میں ’’اشتعال انگیز‘‘ ریمارکس سے احتراز کریں۔ چیف منسٹر نے کہا کہ مسودہ کی اشاعت کا عمل رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے تعاون کے ساتھ اور سپریم کورٹ کی راست نگرانی میں انجام دیا گیا ہے۔ کئی شمال مشرقی ریاستوں نے بھی جن کی سرحدیں آسام کے ساتھ ملتی ہیں، غیرقانونی تارکین وطن کی ممکنہ دراندازی کو ناکام بنانے کیلئے اپنی پولیس فورسیس کو چوکس کردیا ہے۔ مرکز نے آسام اور اس کی پڑوسی ریاستوں میں سکیورٹی کو سخت بنانے کیلئے سنٹرل آرمڈ پولیس فورسیس کی 220 کمپنیاں بھیجی ہیں۔