آر ایس ایس کا بدلتا نظریہ … !

خبر کی سرخیوں میں رنگ بھرنے والی تقریر کرتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تنظیم کے کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کارسیوک ہر اس پارٹی کی مدد کرتے ہیں جو قومی مفاد کے لیے کام کرے ۔ آر ایس ایس کو سرگرم سیاست سے دور رہنے والی تنظیم قرار دینے والے بھاگوت نے قومی مفادات کے مسائل پر اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کرتے ہوئے آر ایس ایس کے 3 روزہ کانکلیو ’بھویش کا بھارت ‘ ( مستقبل کا ہندوستان ) کے پہلے دن آر ایس ایس اقتدار کی حریص نہ ہونے کی وضاحت کی اور اچانک اپنی تنظیم کو جمہوریت پسند قرار دیتے ہوئے آمریت پسندی سے دور ہونے کا ادعا کیا ۔ ہندوتوا کے اصل نظریہ اور معنی و مطلب سے واقف کرواتے ہوئے ہندوستان پر کامل راج کرنے کی خواہش کی کونپلیں اگاتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو اس ملک کا شہری ہونے کی تصدیق کی ۔ اس قوم کے بغیر ہندوتوا کا تصور نا مکمل ہونے کی دہائی دیتے ہوئے آر ایس ایس کے نئے نظریہ کو پیش کیا ۔ ’ ہندوتوا ‘ کے معنی میں اس صف میں مسلمانوں کو شامل کرنا ہے ۔ ہندو راشٹریہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے ۔ اگر ہم نے مسلمانوں کو قبول نہیں کیا تو پھر یہ ’ ہندوتوا ‘ نہیں ہوسکتا ۔ ہندوتوا خالص ہندوستانی طرز زندگی ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔ موہن بھاگوت نے صدر کانگریس راہول گاندھی کے حالیہ تبصرہ اور آر ایس ایس کو اخوان المسلمین سے تعبیر کرنے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سنگھ پریوار اس عالمی برادر پرستی کی بات کرتی ہے ۔ اس برادرانہ کثیر الوجود میں ہی اتحاد پوشیدہ ہے ۔ سنگھ پریوار کا اصل مقصد ہی سارے معاشرہ کو متحد کرنا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ کے نظریات اور خیالات میں اچانک اس قسم کی تبدیلی کے پیچھے گہرے راز پوشیدہ معلوم ہوتے ہیں ۔ آر ایس ایس کی بنیاد ہی نفرت پر رکھے جانے اور قوم دشمنی کے بیج بوئے جانے والے واقعات کے حوالے سے یہ کہا جاتارہا ہے کہ آر ایس ایس کے بانی ساورکر اور گولوالکر نے کبھی بھی ہندوستان کے مفاد میں نہیں سوچا ۔ ساورکر کے ایک مکتوب کا حوالہ دیتے ہوئے قائدین نے یہ واضح کیا ہے کہ آر ایس ایس کے بانی نے برطانوی راج سے ہندوستان کو ہرگز آزادی نہ ملے گی کا دعویٰ کیا تھا ۔ اب اس آر ایس ایس سے وابستہ افراد قوم اور قومی پرستی کی بات کرتے ہوئے فخریہ اعلانات کررہے ہیں ۔ آر ایس ایس کے اس 3 روزہ کانکلیو کی تفصیل جب سرکاری نیوز چیانل دور درشن پر ٹیلی کاسٹ کرتے ہوئے کسی سرکاری پروگرام کی طرح باور کروایا جائے تو پھر موہن بھاگوت کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے کہ ان کی تنظیم کسی سیاسی پارٹی یا اقتدار کے قریب نہیں ہے ۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس کی تقریب کو قومی ادارہ دور درشن سے راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔

سوال یہ ہے کہ آیا موہن بھاگوت اور ان کی تنظیم آر ایس ایس کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بشمول تمام مسلمانوں کے حق میں مثبت رائے رکھنے سے ہی ان کے درپردہ سیاسی عزائم پورے ہوسکتے ہیں ؟ موہن بھاگوت کے تازہ خیالات اور نظریہ کے پیچھے کیا مقاصد پنہاں ہیں یہ وقت آنے پر ہی آشکار ہوں گے ۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو آر ایس ایس اب شکست کو تسلیم کرتے نظر آرہی ہے کہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے وہ ہندوستان کی جمہوریت اور یکجہتی کا تصور نہیں کرسکتی ۔ کل تک آر ایس ایس نے ہندوستانی اقوام سے فاصلے بڑھالیے تھے اور اپنا قد گھٹالیا تھا ۔ اس گھٹتے قد کا احساس ہونے لگا ہے تو اپنے دل کے زخموں کے پھول کھلا کر اب وہ شام غم منانے کے لیے موافق مسلم لب و لہجہ اختیار کرچلے ہیں ۔ یہ وہی آر ایس ایس تنظیم ہے جس کے بانی نے برطانوی حکومت سے اپنی آزادی کی بھیک مانگتے ہوئے معذرت خواہی کے مکتوبات روانہ کئے تھے ۔ اس تنظیم کا تعاقب کرنے والی سچائی کے درمیان موہن بھاگوت نے یہ خواہش کی کہ ان کی تنظیم کو کسی بھی سیاسی پارٹی سے دور رکھ کر دیکھا جائے وہ صرف قومی مسائل پر توجہ دینے والی تنظیم ہے ۔ حکومت کے کام کاج میں ہرگز مداخلت نہیں کرتی ۔ دراصل بھاگوت نے بی جے پی کے لیے عام انتخابات میں سیکولر ووٹوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کانگریس کی بھی ستائش کر کے آر ایس ایس سربراہ نے اس پارٹی کو سیاسی نقصان پہونچانا بھی چاہا ہے ۔ آر ایس ایس کی یہ تبدیلی دیکھ کر معلوم ہورہا ہے کہ آیا واقعی زمین اپنے ایک محور پہ گھومتی ہے ؟ ۔