دنیاکے تمام مذاہب کا مطالعہ کرنے کے لئے بعد یہ بات پوری طرح اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ صحت سے بڑھ کر دنیامیں کوئی چیز نہیں ہے ۔ لیکن حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ صحت کو لے کر ہی ہم سب غافل اور کوتاہ ثابت ہورہے ہیں۔ اسلام کا اگر ہم مطالعہ کری تویہ بات صاف طور پر سمجھ میںآجاتی ہے کہ اسلام نے جہاں کمزور مومن سے طاقتو ار مومن کو بہتر بتایا ہے وہیں بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت سمجھنے کی ہدایت دی ہے لیکن آج جس طرح سے ہم اور آپ صحت کو نظر نادز کررہے ہیں وہ نہ صرف اسلام کے صریح خلاف ہے بلکہ وہ ہمارے مستقبل کے لئے بھی اچھانہیں ہے۔
ہمارے پیدا ہونے والے بچے کتنے زیادہ صحت مند ہیں اس کا اندازہ بچوں کے لئے کام کرنے والی یونائٹیڈ نیشن کی تنظیم یونیسیف کے روز روز کے جائزوں اور سروے رپورٹ سے لگایاجاسکتا ہے۔ یہ سروے رپورٹ نہ صرف آنکھیں کھولنے والے ہیں بلکہ دل کودہلادینے کے لئے کافی ہیں۔ یونیسیف کے پروگرام میں شرکت کے بعد یہ اندازہ لگانا مشامل نہیں ہے کہ ہمارے بچوں کی صحت کیسی ہے اور ہماری بے حسی ہمیں لے ائی ہے۔
یونیسیف نے گذشتہ سالوں میں میں ہندوستان میں صحت کی خدمات کو بہتر بنانے کے لئے جو مہم چلائی ہے وہ قابل قدر ہے ۔ یونیسیف انڈیانے جس طرح ڈبلیو ایچ اوکے ساتھ ہندستان کے دوسرے اداروں اور خاص طور سے مذہبی وسماجی ذمہ دارو ں کوصحت کی مہم سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے وہ تاریخ کے صفحات میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماراملک ہندوستان صرف ایک غریب ملک نہیں ہے بلکہ ہندوتان کی ایک بڑی آبادی ایسی جگہوں میں رہتی ہے جہاں مہلک او روبائی بیماریوں کاجنم لیناکوئی نئی بات نہیں ہے۔
آج ہماری بڑی آبادی سلم اور ایسے علاقوں میں رہتی ہے جپاں علاج کے لئے بہتر اسپتال ‘ پینے کے پانی اور نہ ہی اچھے تعلیمی ادارے ہیں ‘ جہاں ہمارے بچے پڑھ لکھ کر اپنے والدین اور اپنے ملک کانام روشن کرسکیں۔ حد تو یہ ہے کہ بچے کچروں کے درمیان پڑنے کھانے بار کھاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ایسے میں ہمارا مستقبل ریل کی پٹریوں کے درمیان کس طرح سے ردی کی ٹوکری چننے میں تباہ ہورہا ہے اور لٹین زون کے فٹ پاتھ یا ریڈ لائٹ پر کھڑے لال بتی پر بھیک مانگتا ہوا نظر آرہا ہے ‘ وہ ہم او رآپ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ایسے وقت میں یونیسیف انڈیا کی طرف سے ہندوستان کی ماؤں او ربچوں کو صحت مند بنانے کے لئے چلائی جارہی مہم اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے باوجود اس کے کہ یہ مہم کئی بار افواہوں کی نذر ہوجاتی ہے ۔
اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یونیسیف انڈیا نے اپنی تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک قدم بڑھتے ہوئے اب ہندوستان کے صحافیوں کو بھی بیدار کرنے او رصحت کے متعلق معلوماتی رپورٹنگ او ربہتر کرنے کے لئے ایک ایسے کورس کوشروع کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کے دورس نتائج سامنے آنے کا مکمل اور کامل امکان ہے کیونکہ چند ماہ قبل دہلی کے اشوکا ہوٹل میں منعقد ہونے والے سہ روز ہ کورس پروگرام کے بعد صحافیوں میں کافی بدلاؤ دیکھنے کو ملا ہے اور صحت کو لے کر میڈیا میں ایک بیداری مسلسل دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ یونیسیف انڈیاکے حکام کے مطابق اس پروگرام میں شرکت کرنے والے لوگوں پرگرام کے بعد اپنی بات رکھتے ہوئے گذشتہ تیس سالوں میں کی گئی رپورٹنگ اس معنی میں بیکار ہے کہ رپورٹنگ کی جڑوں تک کس طرح جایاجائے انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں تھا ‘ لیکن یونیسیف انڈیانے انہیں ایک راستہ دکھا یا ہے۔
تاہم یونیسیف نے حال ہی میں اس کورس کا افیشیل آغاز کردیا ہے ۔ اس کورس کو چارحصوں میں بانٹا گیا ہے جہاں پہلے حصے میں ایک ایسے ذمہ دارصحافی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی رپورٹنگ کے دوران سماج کو صحیح سمت دے سکتے ہیں۔ پورا زور اس بات پر ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ کو کیسے بہتر بناکر اسے سماج کے حق میں بااثر بناسکتے ہیں۔ یہ جاننے کی کوش کی جارہی ہے کہ ایک ڈاکٹر تحقیقات میں کس طرح چیزوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ صحافی بھی انہیں چیزوں پر توجہ دے کر سماج کو آگ لے جائیں۔ ان چیزوں میں بنیادی چیزوں کی تشریح کی گئی ہے ‘ ساتھ ہی ریسرچ رپورٹنگ پر پورا زوردیاگیا ہے کیونکہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ چیز کلی طور پر واضح ہوکر آجاتی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خبروں کے سچ او رغلط کے درمیان تمیز کرنے کی پہلے دن سے ہدایت دی ہے۔
اسلام کا کہناہے کہ جب آپ کے پاس کوئی جھوٹا خبرلائے یاکوئی جھوٹی خبر لائے تو سب س پہلے اس کی توثیق کرلیاکری‘ اس کے بعد ہی اس کو آگے بڑھائیں۔اس کورس میں ویکسین پر مکمل توجہہ دی گئی ہے تاکہ ٹیکہ کاری کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیاجاسکے۔ اس کے ذریعہ ان باتوں کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کم وزن بچوں یا کمزور بچوں یا انفکیشن زدہ بچوں سے معاشرہ کوکتنا نقصان ہوگا۔ متعدی او رغیرمتعدی بیماریاں سماج کے لئے کتنی تباہ کن ہیں اور ان کو کیسے روکا جاسکتا ہے ۔
تیسرے حصہ میں ماں اور بچوں کی صحت پر پورا پورا زوردیاگیا ہے کیونکہ ہم او رآپ جانتے ہیں کہ جب ہمارے بچے ہماری ماں یابیٹیاں صحت مند نہیں ہوں گی ‘ اس قت تک ہمارا مستقبل تاریکی میں ڈوبا رہے گا۔ ایک ماں کاصحت مند ہونا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس با ت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک دن وہ بیمار ہوجائے تو پورا کا پورا گھر ویران نظر آتا ہے ‘ جب کہ باپ کی صحت بگڑ نے پر ماں او رباپ اور بیٹے دونوں کو سنبھال لیتی ہے۔ اس کورس کا چوتھا حصہ دواؤں کے فوائد او رنقصان پر بحث کرتا ہے ۔ درمیان میں اینٹی بائیوٹیکس کو چھوڑ نے یااس اس کے کورسس کو مکمل نہ کرنے سے متعلق نقصان کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس بات کو بھی بتایاگیا ہے کہ ایک شخص اگر اینٹی بایوٹک پر کلی طور پر انحصار کرتا ہے تو اس کی زندگی میں کتنے خطرناک موڑ آتے ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اس پرسارے اینٹی بائیوٹک اثر کرنا بند کردیتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹیک کی مارکٹنگ کے بارے بھی اس کورس میں پوری طرح بحث کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ معاشرے میں خلفشار پید ا کرنے کی کوششوں کو بھی بے نقاب کیاجاسکے اور اکی ضرورتوں کے بارے میں لوگوں کو بتایاجاسکے کیونکہ اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر اس کورس میں بحث کی گئی ہے۔ بہرحال یونیسیف کی یہ کوشش قابل قدر ہے اور اس کورس پر پورے ہندوستانی سماج کو سوچنے کی ضرورت ہے ‘ کیونکہ اسلام دنیا میں رہنمائی کے لئے آیاہے لیکن آج ہمیں رہبرکی تلاش ہے۔
ایسے میں آج ہندوستان میں جو مدرسے ہیں یاہمارے پاس مدارس کا جو ڈھانچہ موجود ہے اگر ہم چاہیں تو وہاں بھی عصری تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی صحت او راپنے بچوں کے روزگار کی خاطر اس کورسس کو نصاب میں شامل کرسکتے ہیتاکہ کم ازام فراغت کے وقت انہیں ہم اس حد تک تیار کرسکیں کہ وہ معاشرے میں ریسرچ کی بنیاد پر رپورٹنگ کرسکیں اور اس کو آگے بڑھائیں۔
صحت کے فوائد سے ہم سب واقف نہیں اور صحت کے بارے میں ہم اکثر فکر مند رہتے ہیں لیکن اپنی حفاظت کرنے میں ہم ہمیشہ ناکام نظر آتے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ما ں اور بچے کی صحت سے منسلک اس کورس پر مکمل توجہہ دی جائے اورجامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘ عثمانیہ یونیورسٹی سمیت تمام اقلیتی اور دوسرے اداروں کے ذمہ داروں سے میری گذارش ہے کہ وہ یونیسیف انڈیاکے ذریعہ تیار کردہ اس کورسس کو ہاتھوں ہاتھ الیں اور اس کے ذریعہ سے وہ بچے تیار کریں جو سماج کو صحت مند بنانے میں اپنا غیرمعمولی کرداراداکریں‘ کیونکہ ہم سب میڈیا کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن اگر ہمارے بچے ریسرچ کی بنیاد پر رپورٹنگ کرناسیکھ جائیں گے تو اس سے بہتر ہمارے لئے کچھ نہیں ہوسکتا ہے اور یہ معاشرے کے لئے ایک نعمت غیرمترقبہ ہوگا۔