کالے دھن پر معلومات

تم دو فریب اور میں سمجھوں سزا اسے
اب اتنا بھی سادگی کا زمانہ نہیں رہا
کالے دھن پر معلومات
سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں ہندوستانیوں کی جانب سے چھپا کر رکھے گئے ہزاروں کروڑ روپئے کے کالے دھن کے معاملہ میںایسا لگتا ہے کہ کچھ پیشرفت ہونے والی ہے ۔ چند دن قبل سوئیٹزر لینڈ نے اپنے قوانین میں ترمیم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ بیرونی ممالک کو ان افراد کے تعلق سے معلومات فراہم کرنے میںاسے مشکل پیش نہ آئے جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں ٹیکسیس اور محاصل سے بچنے کیلئے یہ رقومات سوئیس بینکوں میں جمع کراوئی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ سوئیس حکام نے ان افراد کے تعلق سے تفصیلی ڈاٹا بھی تیار کرلیا ہے ۔ ایک فہرست تیار کرلی گئی ہے اور اس پر مزید کام کیا جا رہا ہے ۔ اب ہندوستان کی جانب سے اس معاملہ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سوئیس حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ سوئیس بینکوں میں جن ہندوستانیوں نے کالا دھن چھپا کر رکھا ہوا ہے ‘ جو غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے اور جس پر ٹیکس اور محاصل ادا نہیں کیا گیا ہے ‘ ان کے تعلق سے اسے معلومات فراہم کی جائیں۔ اب تک اس معاملہ میں بہت معمولی پیشرفت ہوئی تھی کیونکہ سوئیس حکام اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے جو مقامی قوانین ہیں ان کے مطابق کسی کو بھی ان بینکوں میں خفیہ کھاتے رکھنے اور بھاری رقومات رکھنے والوں کے تعلق سے کسی اور کو معلومات اور اطلاعات فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ یہ ایک ایسا عذر تھا جس پر دوسرے ممالک کی حکومتیں زیادہ کچھ نہیں کرسکتی تھیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ پر بات آگے بڑھے گی کیونکہ سوئیس حکام نے اپنے مقامی قوانین میں ترامیم سے رضامندی کا اظہار کردیا ہے ۔ اب بیرونی ممالک کو خفیہ کھاتوں اور کالے دھن کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑیگا اور سوئیس حکام تعاون کرتے ہیں تو انہیں تمام تر معلومات حاصل ہوجائیں گی ۔ یہ اطلاعات حاصل کرنے کے بعد حکومتوں کی ذمہ داری بن جائیگی کہ وہ ان افراد کے خلاف مناسب کارروائی کرے اور جو بھاری رقومات بیرونی ممالک میں رکھی گئی ہیں ان کو ہندوستان لانے کیلئے عملی طور پر کارروائی کا آغاز کرے ۔ ہندوستان میں نریندر مودی حکومت اس مسئلہ پر سنجیدہ ہونے کا ادعا کرتی ہے ۔ آئندہ دنوں میں اس کی سنجیدگی کا امتحان ہوگا ۔
ہندوستان میں یہ تاثر عام ہے کہ بیشتر کارپوریٹ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور کئی سیاستدانوں نے ‘ جن کا مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق ہے ‘ ہزاروں کروڑ روپئے کا کالا دھن جمع کر رکھا ہے اور ہندوستان میں انہوں نے کسی طرح کی قانونی کارروائی سے بچنے کیلئے یہ رقومات سوئیز بینکوں میں جمع کروائی ہیں۔ انتخابات سے قبل مہم کے دوران بی جے پی قائدین اور خاص طور پر نریندر مودی نے بھی کہا تھا کہ وہ اس کالے دھن کو ہندوستان لانے کیلئے اپنے طور پر ہر ممکنہ کوشش کرینگے ۔ انتخابات سے قبل بھی گذشتہ چند برسوں سے کالے دھن کا مسئلہ موضوع بحث رہا ہے اور حکومتیں اور سیاسی قائدین یہ کہتے رہے ہیں کہ ان رقومات کو ہندوستان لایا جانا چاہئے ۔ اس معاملہ میں سوئیٹزر لینڈ کے مقامی قوانین وغیرہ ایک رکاوٹ بنے ہوئے تھے ۔ کالا دھن بیرون ملک رکھنے والے افراد ان قوانین کی آڑ میں بچے ہوئے تھے اور انہیں کسی طرح کا اندیشہ لاحق نہیں تھا تاہم اب سوئیز حکام اپنے قوانین میں ترامیم کر رہے ہیں تو ملک بھر کے عوام میں یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ شائد ان افراد کے چہرے اب بے نقاب ہوسکیں جنہوں نے غیر قانونی طریقوں سے جمع کردہ دولت اور ٹیکس چوری سے حاصل کردہ رقومات کو بیرون ملک جمع کر رکھا ہے ۔ اگر واقعی حکومت سنجیدگی سے کام کرتی ہے تو پھر عوام کی اس امید کو پورا کرنے میں اسے زیادہ مشکلات پیش نہیں آنی چاہئیں۔ جو کالا دھن بیرونی ممالک میں جمع ہے اسے ہندوستان منتقل کرنا ضروری ہے اور اس سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس کو جمع کرنے والوںکو بے نقاب کیا جائے ۔
سوئیز بینکوں میں خفیہ کھاتے رکھنے والوں کی فہرست میں یقینی طور پر کچھ کارپوریٹ گھرانوں اور سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ایسے میں اس فہرست کو بے نقاب کرنے اور یہ رقومات ہندوستان لانے میں کئی طرح کی رکاوٹیں بھی درپیش ہوسکتی ہیں۔ نہ صرف سوئیٹزر لینڈ میں بلکہ ہندوستان میں بھی اس عمل کو روکنے کیلئے کوششیں ہوسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملہ میں سیاسی سرپرستی کی روایت کو ترک کرے اور ان اقدامات پر توجہ دے جن کے نتیجہ میں نہ صرف ان ہندوستانیوں کے نام معلوم ہوسکیں جن کے وہاں خفیہ اکاؤنٹس ہیں بلکہ ان رقومات کو ہندوستان بھی منتقل کیا جاسکے ۔ اگر حکومت اس معاملہ میں کسی طرح کی تن آسانی سے کام لیتی ہے یا سیاسی سرپرستی کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تو پھر عوام کو جو امیدیں اب پیدا ہوئی ہیں وہ بے کار ثابت ہونگی اور کالا دھن اسی طرح دوسرے ملکوں میں پڑا رہے گا ۔