حیدرآباد۔ ڈاکٹر ریڈی کے منتھن پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مشہور جرنلسٹ رواش کمار نے کہاکہ نوجوان نسل کو ٹرول کی سیاست سے دور رکھنے کے لئے سماج میں درکار اصلاحات کے متعلق غور فکر وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ فرضی ویڈیو او رتصوئیروں کے ذریعہ ایک گھناؤنی سازش کے تحت سماج میں نفاق پیدا کرنے کی کوششوں کے خلاف منظم تحریک کی شروعات سماج کے ان ذمہ داران پر عائد ہوتی ہے جو ملک کے موجودہ حالات میں اضطرابی کیفیت کاشکار ہورہے ہیں۔گاندھی جینتی کے موقع پر منعقدہ اس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر رواش کمار نے کہاکہ جمہوریت کا اہم اصول سوال پوچھنے کے حق کو کبھی فوت ہونے نہیں دینا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ جب تک سننے والے کے اندر خوف کا ماحول پیدا نہ ہوتب تک ہمیں اس کی خوبیوں او رخامیوں دونوں کے متعلق سوال کرتے رہنا پڑیگا۔ انہوں نے کہاکہ نفرت پھیلانے والوں کا سب سے بڑا ہتھیار فی الحال سوشیل میڈیا بناہوا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ایک مشہور ائی ٹی سل ہے جو کسی بھی واقعہ کو کہیں پر بھی لاکر جوڑتے ہوئے اس واقعہ کے ذریعہ سماج میں نفرت پھیلانے کی کوئی موقع نہیں گنواتا۔
مسٹر راوش کمار نے کہاکہ سرکاری مشنری سے لیکر ائی ٹی سل کے لوگوں تک کسی کے پاس بھی جوابدہی کا خوف اب باقی نہیں رہا۔ انہو ں نے کہاکہ فرضی انکاونٹر کے نام پر حکومتی ادارے پولیس والوں کے خلاف کاروائی تو کرتے ہیں مگر ان ائی پی ایس افسروں کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں ہوتی جو مذکورہ انکاونٹر کے ماسٹر مائینڈ مانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں سہراب الدین اور عشرت جہاں انکاونٹر کے حوالے سے کہاکہ کرناٹک کے ایک جسٹس کو اس واقعہ کی سی بی ائی تحقیقات کے حکم دینے کی وجہہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیاگیا ‘ انہوں نے مزیدکہاکہ اگر عدالتوں میں انصاف کرنے کے بیٹھے جج جس کو چیف جسٹس کا عہدے پر فائز کرنے کے بجائے استعفیٰ دینے پر مجبور کیاجاتا ہے تو ایسے ماحول میں انصاف کی امید لگائے بیٹھے لوگوں کے حوصلوں پر کیااثر پڑیگا اس کا انداز ہ لگانے کی ضرورت ہے۔
مسٹر رواش کمار جن کی تقریر کا عنوا ن تھا ’’ گاندھی ‘ حقیقت او رمتبادل حقیقت کا پیمانہ‘‘نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ گاندھی جی کے سچائی کے راستے پر چلاتے ہوئے سچ بولنے او رسننے کے لئے ہمت کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج کے دور میں اپوزیشن جماعتیں بھی سی بی ائی اورجیل جانے کے خوف میں سچ بولنے سے گھبرارہی ہیں جبکہ مہاتما گاندھی نے جیل جانے کا ڈر دلوں سے نکالنے کے لئے ہی جیل بھرو اندولن کی شروعات کی تھی۔مسٹر رواش کمار نے کہاکہ ہمیں بھی ڈر ہوتا ہے مگر کسی چیز کے خوف سے ہم بولنا بند نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سچ بولنے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسٹر راوش کمار نے کہاکہ ایک جمہوری ملک میں ایک صحافی سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے ہیں کچھ لوگ کہ ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں یاپھر ملازمت سے ہٹانے کا خوف پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر اخبار خبررساں ادارے حکومت پر تنقید نہیں کریں گے تو کون کریگا۔
انہو ں نے مزید کہاکہ ہماری تنقید کے ذریعہ حکومتوں کو اپنی کارکردگی میں سدھار لانے کی ضرورت ہے نا کہ ہمیں جان سے مارنے یا ملازمت سے ہٹانے کی دھمکیا ں دیتے ہوئے ہمیں خوفزدہ بنانے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک کو بلٹ ٹرین کی نہیں بلکہ بھائی چارے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم ٹرین میں سفر کررہے ہیں توآپس میں اپنی روٹی بانٹ کر ہم کھائیں‘ کسی سے جان کا خطرہ لاحق نہ ہو‘ کسی کے قتل پر جشن منانے کاکام نہ کیاجائے ‘ کیاکھانا ‘ کیاپہننا اور کیاکرنا ہے اس کے لئے ہمیں مکمل آزادی ملے ایسے ماحول کی ہمیں ضرورت ہے۔ مسٹر راوش کمار نے آپس میں ہمارا بھروسہ ختم نہ ہواور ہم کسی بھیڑ کی شکل اختیار نہ کریں ایسے ماحول کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج بھی اس ملک میں ایک ایسا ہندوستان بستا ہے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی کم ہے تو وہا ں پر عاشورہ کے موقع پر علم مقامی ہندو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور اگر کسی علاقے میں ہندو آبادی کم ہے تو وہاں پر درگاپوجا کا پنڈال مسلمان تیار کرتے ہیں اور پوجا کا اہتمام کرتے ہوئے ہندو عقیدت مندوں کی خدمت کرتے ہیں ۔انہو ں نے کہاکہ ملک کی سیاست اس قدر نیچے گر گئی ہے کہ حالیہ دنوں میں یشونت سنہا نے ایک بیان ملک کی گرتی معیشت کے متعلق دیا جس کا جواب دینے کے لئے یشونت سنہا کے بیٹے کو اگے کردیا ۔انہوں نے کہاکہ سیاست کے اس افسوس ناک پہلو سے مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ‘ انہوں نے مزیدکہاکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ملک کے معاشی نظام کی باگ ڈور جس کے ہاتھوں میں ہے وہ پہلے اس کو جواب دیتے اور بعد میں یشونت سنہا کے بیٹے کو اگے کرتے ۔
انہوں نے کہاکہ اس طرح کی سیاست ہندوستانی تہذیبکا حصہ ہے ۔ مسٹر راوش کمار نے کہاکہ تشدد گاندھی جی کا نظریہ نہیں ہے‘ انہو ں نے تو امن واتحاد کے لئے اپنی جان کی قربانی دیدی ہے۔انہوں نے کہاکہ آج ایم ایم کلبورگی کے قتل پر ساہتیہ کاروں کی جانب سے ایوارڈ واپس کرنے کی شروعات عمل میں ائی ۔انہو ں نے کہاکہ آج ان لوگوں کو ایوارڈ واپسی گینگ کے نام سے پکارا جاتا ہے او راگر ملک میں کہیں کچھ بھی واقعہ پیش آتا ہے تو انہیں ایوارڈ واپس کرنے والے گینگ کے طور پر یاد کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایاجاتا ہے ۔
انہو ں نے کہاکہ ایسے کچھ میڈیاہاوز ہیں جو صحافت کی اہمیت کو فراموش کرتے ہوئے حکومت کے گودی میڈیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ روز رات کو کالا کوٹ پہن کر شروع ہوجاتے ہیں اور ایوارڈ واپسی گینگ کا تعقب کرتے ہیں وہ یہ بھول گئے کہ سابق میں جن لوگوں نے ساہتیہ کار کے طور پر ایوارڈ حاصل کیا تھا حکومت کی ناکامیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایوارڈ واپس کرچکے ہیں مگر اب ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنھیں پچھلے تین سالوں میں ساہتیہ کار کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ میڈیاہاوزکے مالک او راقتدار میں حصہ داری بھی حاصل کرلی مگر ان کے دلوں میں بھی خوف نمایاں طور پر دیکھائی دیتا ہے۔مسٹر راوش کمار نے کہاکہ ائی ٹی سل کے ٹرول سے ڈرنے کے بجائے اپنے بچوں کو واٹس ایپ یونیورسٹی کا طالب علم بننے سے روکیں۔ انہو ں نے مزیدکہاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دونوں میں واٹس ایپ یونیورسٹی کا شکار ہوکر آپ کا بچہ بھی کہیں ہجوم کی شکل میں نفرت پھیلانے والوں کے ہاتھوں کا ہتھیار او رکسی بے قصور کے قتل کا ذمہ دار نہ بن جائے۔