میں نے جب ہوش سنبھالاتو خود کو خبروں کی دنیاکا شیدائی اور خود کو اسی دشت کی سیاحی پر مامور پایاتھا۔بچوں کی کہانیوں کا مطالعہ سے لے کر بلاناغہ اخبار بینی اور نیوزمیگزین کا مطالعہ اوائل عمری سے میرا شوق رہاہے۔ جب میری عمر کے لڑکے کرکٹ اور دوسرے کھیلوں میں مصروف رہتے تب میں اُردو او رانگریزی کے اخبار او ررسائل کے مطالعہ میں مصروف رہا کرتا تھا۔ یہ دن کے بیشتر اوقات کا معمول تھا۔ شام ہوتی تو رات کا بے چینی کے ساتھ انتظار کرتا اور اپنے والد کے ساتھ بی بی سی کی ورلڈ نیوز سرویس سنا کرتاتھا۔
اس طرح میرا بچپن اُردو کہانیاں اور شاعری پڑھتے ہوئے گذراجبکہ یونیورسٹی سطح ھر میں نے انگریزی ادب میں داخلہ لیا او رڈگری حاصل کی۔اس ڈگری کی بدولت مجھے ایک عمدہ سرکاری ملازمت مل گئی تھیجس میں تنخواہ بھی تھی لیکن میں نے اس خیر آباد کہہ دیا اور صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرلیا۔اسکی وجہہ بچپن سے میرے اندر پائے جانے والا صحافت کا شوق تھا۔کم وبیش دودہوں تک صحافت سے میری گہری وابستگی اور جنون کی حد تک کام کرنے کا رحجان اس وقت تک جاری رہا جب تک خلیج میں میری ملازمت برقر ارہی ۔ جب میری حق گوئی کے سبب مجھ کو علیحدہ کردیاگیاتب بھی صحافت سے میرا رشتہ منقطع نہیں ہو۔ ہر چند کے معمولات میں تبدیلی اگئی لیحکن صحافت کا میرا جنون کم نہیں ہوا۔
صحاف تسے کسی اختیار کے بغیرمیری وابستگی ہی یہ چھٹا سال تھامگر جو رشتہ اور جوش پہلے تھا اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ائی ہے۔ ایسا شخص جب آج کی صحافتی ترجیحات کو دیکھتا ہے او رصحافتی خدمات کے نام پر ہونے والے تماشاشوں کا جائزہ لیتا ہے تو سوچئے اسے کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔
شعبہ صحافت میںآنے والے نئے رحجانات میں خاص طور پر مسئلہ زیادہ کہ حکومت سے کوئی سوال کیاجائیگااور اس کی تباہ کن پالیسیوں پر بھی خاموشی برقرار رکھی جائے گی ‘ اب سے پہلے ایسا کبھی نہیں تھا۔بی جے پی کے بزرگ لیڈرایل کے اڈوانی نے اندرا گاندھی کے دور ایمرجنسی میں اخبارات کے طرزعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ کہاتھا کہ انہیں جھٹکے کیلئے کہاگیاتھا لیکن وہ تورینگنے لگے تھے او راڈوانی کا یہ جملہ اب زیادہ یاد آنے لگا ہے کیونکہ اب حالات زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔انڈین ایکسپریس جس سے ماضی میں وابستہ تھااور جس کے اداریہ کی جگہ خالی چھوڑ کر اندرا گاندھی کی سینئر شپ کے خلاف زبردست مزاحمت کی تھی ‘ ایسے چند اخبارات کو چھوڑ کر ہندوستان کا زیادہ تر حصہ اپنے پیشہ جاتی اخلاقیات اور دیانتداری کے اصولوں کو فرامو ش کرچکا ہے۔
اگرمذکورہ اقدار کے ساتھ تھوڑا بہت سمجھوتا کرلیاجائے تو اسی نظر انداز بھی کرلیاجائے گا مگر دیکھنے میںیہ آرہا ہے کہ میڈیا نے اپنی آزادی باخوش ورضارہن رکھ دی ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ مسلمان اور دگیر اقلیتوں کے ساتھ بتی جانے والی ہندو توا جارحیت میڈیانے بلکل نظر انداز کردی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ میڈیاکے بعض حلقوں نے آبادی کے ان حسا س طبقات پر اپنی جانب سے بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر بات ارنب گوسوامی کی ہے کے چینل تک محدود رہتی جنھوں نے تین سال قبل روزانہ رات پاکستان ‘ انڈین مجاہدین‘ اور ائی ایس ائی ایس کے خلاف طومار باندھتے ہوئے ہندوستان کے اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ لیکن یہی طرز عمل اب بیشتر نیوز چینلوں نے اپنا لیاہے۔ایک این ڈی ٹی وی کو استثناء قراردیاجاسکتا ہے۔
اس چیانل کا انگریزی شعبہ بھی دوسرے چینالوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ٹی آر پی کی دوڑ میں اور حکومت کے سر میں سر ملانے کی نئی روش کا عالم یہ ہے کہ ہندی او رعلاقائی زبانوں کے چینل ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں اس جوش کے ساتھ مصروف ہیں کہ حقائق پر سنسنی خیز کو ترجیح دینے سے نہیں چوکتے ۔بعض اوقات یہ مشورہ دیتے ہیں کہ کیرالا او رکشمیروہ ریاستیں ہیں جنہیں ائی ایس ائی ایس بے قبضہ کرلیاہے۔جبکہ حکومت ہند کا بہ اصرار یہ کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں انتہا پسندی سے پاک ہیں جس کاسبب اس ملک کے سیکولرزام او رجمہوریت ہے۔ آج کل ان چیانلوں پر ایک نیا جنون سوار ہے اور وہ ہے پاپولرفرنٹ آف انڈیا( پی ایف ائی)سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ پی ایف ائی پر ڈھیروں الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
مثلا یہ ائی ایس ائی ایس کے ساتھ ہے او رہندو خواتین کو مسلمان بناکر ہندوستان کے خلاف جہاد کا ارادہ رکھتی ہے۔صاف ظاہر ہے کہ پاپولر فرنٹ کے خلاف بھی سیمی جیسا ماحول بناجارہا ہے جس پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اس کے سینکڑوں کارکنوں او ررضاکار برسو ں سے جیل میں ہیں۔ہندی او رعلاقائی چینلوں پر سرگرم مودی نواز صحافتی حلقے ’’ بنگلہ دیش دراندازوں ‘‘ کو بھی گرما گرم بحث کا موضوع بناتے رہے اور اب انہیں روہنگیاں مسلمانوں کا موضوع بھی مل گیاہے۔جب ان چینلوں او رصحافتی حلقے ان موضوعات پر بحث سے اکتا جاتے ہیں تو گائے اور لو جہادکا موضوع لے آتے ہیں۔
کبھی مسلم پرسنل لاء اور تین طلاق پر بحث چھیڑ دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان اور داؤد ابراہیم تو ان کا محبوب موضوعات ہیں۔ میں جب کبھی ان چینلوں کو آن کرتا ہوں توان پر جو کچھ جاری رہتا ہے انہیں پانچ منٹ سے زیادہ برداشت نہیں کرپاتا۔وایسے اب یہ بھی پرانے بات ہوگئی ہے ۔
اب وائیلڈ لائف چینل دیکھنے لگا ہوں تاکہ مذکورہ چینلوں کے پروپگنڈہ سے اپنا دماغ خراب کرنے سے بچ سکوں۔حیرت اس بات پر ہے کہ درجنوں سنگین مسائل ہیں جن پر بہت سنجیدہ گفتگو ضروری ہے لیکن چینلوں کو کچھ اورہی سوجھی ہوئی ہے۔ بھیڑ کے ہاتھوں پیٹ پیٹ کر قتل کردینے کے واقعات سے لے کر جی ایس ٹی کے نفاذ سے پیداہ شدہ صورتحال جس سے کاروباری طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے‘ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور ہزاروں کسانو ں کی خودکشی یہ سارے موضوعات ایسے ہیں جن پر بحث او رمباحثہ ضروری ہے لیکن میڈیاان موضوعات کے عبارے میں ہوا بھر کر اسے اونچا اڑانے کی کوشش کرتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
خاص مضمون اعجاز ذکا سید۔