مذہب سے کوئی خاص رشتہ نہیں رہا ہے طالبان خان کا

عمران خان پاکستان میں بہت پسند کئے جاتے ہیں ‘ پاکستانی عوام امید کرتی ہے کہ وہ ایسا کوئی قدم اٹھائیں جس سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہو
پاکستان کے ڈکٹیٹر پریسڈنٹ صدرضیا الحق کے دور سے شروع ہونے والی افغان جنگ نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو جنم دیاتھا۔کوئی سونچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ذالفقار علی بھٹو کے دور تک جو قوم کافی کھلے ذہن کی تھی‘ وہ اچانک مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوجائے گی۔

افغان جنگ کے وقت شرعی قانون نافذ کردیاگیا ‘ جس کا سب سے زیادہ فائدہ مبینہ اسلامی اسکالرس نے اٹھایا۔

انہیں نہ صرف اقتصادی فائدہ ملا بلکہ ان کے ہاتھ ایک نیاہتھیار لگ گیاجو مذہب کے نام پر ان کا فائدہ کرتاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کی لہر پاکستان کی آبادی کے بڑ ے حصے میں پھیل گئی ۔

یہی وجہہ ہے کہ پچھلے دودہوں سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے نام پر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔

انتہا پسندی پر بریک اس وقت لگا جب لوگوں کو ایسا ہونا شروع ہوا کہ اس سب کی وجہہ سے پاکستان جو کافی ممالک سے آگے تھا ‘ اب بہت پیچھے ہوچکا ہے۔

اب بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے۔

بالخصوص وہاں جہاں تعلیم عام یاپھر آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہے۔

آخری پانچ سالوں میں اثر دار حکومت نے نصاب میں تبدیلی کے ذریعہ اسی چیز پر کافی حد تک کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ مسلئے کچھ سالوں میں حل ہونے والا نہیں ہے۔

الیکشن 2018میں مذہبی انتہا پسندی کے نام پر کچھ لوگوں نے حصہ لیا‘ مثال کے طور پر جماعت الدعوۃ‘ تحریک طالبان پاکستان‘ اور اہل سنت والجماعت جیسی سیاسی پارٹیوں کے نام ان میں شامل ہیں۔ان میں سے اہل سنت والجماعت وہ گروپ ہے جس پر حکومت پاکستان نے پابندی عائد کردی ہے۔

اس کے لیڈران کا نام چوتھی فہرست میں ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ تمام قائدین دہشت گردوں میں سرگرم ہیں اور بالخصوص شیعوں کے خلاف۔پاکستان نے نہ صرف اہل سنت الجماعت بلکہ جماعت الدعوۃ اور تحریک پاکستان طالبان جیسے انتہا پسند تنظیموں کو بھی مسترد کردیا او راسی وجہہ سے یہ پارٹیاں کوئی بھی سیٹ جیت نہیں سکیں۔

سعید کی بات کی جائے تو یہ کہنا بلکل درست ہوگا پاکستان کی عوام میں ایسے کسی گروپ کے لئے کوئی ہمدردی نہیں۔

پاکستان کی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ امن ان کے لئے کس قدر ضروری ہے‘ چاہئے وہ ہمارے اپنے ملک میں ہو یا پھر کسی اور ملک میں۔

عمران خان پاکستان میں بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ لوگ انہیں طالبان خان بھی کہتے رہتے ہیں‘ لیکن اگر عمران خان کا ماضی دیکھیں تو شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کا مذہب سے کبھی کوئی گہرہ تعلق رہا ہے۔

پاکستان کی عوام اس بات کی امید کرتی ہے کہ وہ ایسے کوئی قدم نہیں اٹھائیں ‘ جس سے مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوجائے۔

اگر پاکستان میں امن قائم کرنا ہے تو اس کو ایک سکیولر مملکت بنانے کی ضرورت ہے جو یک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

جس طرح عوام نے مذہبی انتہا پسندوں کومسترد کردیا ہے‘ بلکل اسی طرح بہت ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت ایک ایسا قدم اٹھائے جس سے ائندہ ایسی کوئی پارٹی یا گروپ الیکشن میں حصہ نے لے سکے ۔

اس کے علاوہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ختم کرنے قدام اٹھائے تاکہ جس کے ذریعہ افغانستان او رہندوستان میں بھی امن قائم ہوسکے۔پاکستان سے مذہبی انتہا پسندی کو الوداع کہنے کی ایک اور اہم وجہہ امریکی کی وجہہ سے پیدا ہوئی سیاست بھی ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے امریکہ نے اپنی پالیسی کافی سخت کردی ہے اور با اس بات کی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند ی کو برداشت کیاجائے۔

اگر پاکستان اگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کو نہ صرف تعلیم پر توجہہ مرکوز کرنی ہوگی ایسے تمام مزاحمت کاروں کو بھی ختم کرنا ہوگا جو مذہبی انتہا پسندی کو بڑھا ودی دیتے ہیں۔

اصلیت یہ ہے کہ قوم اب جاگ رہی ہے اور مذہبی انتہا پسندی کا اب خاتمہ یقینی ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔