بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان اتحاد کا اعلان تعداد کے کھیل میں اہم تبدیلی ہے۔سب سے پہلے اس اتحاد کے متعلق وزیراعظم نریندر مودی نے بی ایس پی صدر مایاوتی اور ایس پی صدر اکھیلیش یادو کا مذاق اڑاتے ہوئے کہاکہ ’’ جو لوگ ایک دوسرے کی آنکھ میںآنکھ ڈال کر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے آج وہی لوگ سستی سیاسی شہرت کے لئے ایک دوسرے ہاتھ ملارہے ہیں‘‘۔
انہوں نے مایاوتی کو 1995کا وہ واقعہ بھی یاد دلایا جس میں ایس پی کارکنوں نے لکھنو گیسٹ ہاوز میں ان پر حملہ کیاتھا۔دوسرا کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے کہاکہ ’’ مایاوتی اور اکھیلیش یادو کے لئے ان کے پاس بہت احترام ہے‘‘۔تیسرا دیگر اپوزیشن لیڈر جیسے مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی اور کرناٹک کے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی نے ایس پی بی ایس پی اتحاد قائم ہونے کا خیرمقدم کیا۔
چوتھا بھیم آرمی جس کی وجہہ سے دلت سماج کے اندر ہی مایاوتی کو چیالنج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ نے بھی ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ۔پانچواں پیر کے روز آر جے ڈی لیڈر اور بہار اسمبلی کے لیڈر برائے اپوزیشن تیجسوی یاد نے مایاوتی سے لکھنو میں ملاقات کی ۔
مایاوتی کے پیر چھوکر انہو ں نے انہیں سالگرہ کی پیشگی مبارکباد بھی دی۔ لکھنو میں ان کی سالگرہ تقریب میں بہت سارے لیڈروں کی شرکت متوقع ہے۔یہ تمام چیزیں مجوزہ لوک سبھا الیکشن کے لئے مایاوتی کو اہم اپوزیشن چہرہ اورامکانی وزیراعظم امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
اور ہندوستان کی پہلی دلت وزیراعظم بننے کے ان کے ائیڈیا کو آگے بڑھائے گا۔ مگر ایک لیڈر جس کا ایک بھی نمائندہ لوک سبھا کے لئے منتخب نہیں ہوا وہ اس مقام تک کس طرح رسائی کرنے میں کامیاب رہی؟۔اس کے لئے کچھ سال پیچھے جائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ‘ زوال پذیر ہونے کے ساتھ ہی مایاوتی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی۔ ساک2012سے2017کے درمیان مایاوتی کے شاندار سیاسی مستقبل کے سب سے برا دور تھا۔
سال2014میں بی ایس پی ایک بھی لوک سبھا سیٹ جیتنے میں ناکام رہی اور2017میں اس پارٹی کو اترپردیش اسمبلی انتخابات میں تیسرا مقام حاصل ہوا۔پارٹی کے بہت سارے بڑے قائدین نے پارٹی چھوڑ دی۔
نسیم الدین صدیقی نے کانگریس اور سوامی پرساد موریہ نے بی جے پی اور اندر جیت سروج نے سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
اپنے ووٹ بینک میں بھی بی ایس پی کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور غیرجاتو دلت بھی بی جے پی میں شامل ہونے لگے ۔بی جے پی کو غیر جاتو دلتوں کی ملنے والی حمایت میں 2012میں49فیصد سے گھٹ کر2014میں 33فیصد تک پہنچ گئی۔
پارٹی کی مقبولیت جاتو کو چھوڑ کے تمام طبقات میں گھٹنے لگی۔وزیراعظم کے لئے امکانی امیدوار کے طور پر ابھرنے والے مایاوتی کی مقبولیت اترپردیش کی جاتو سماج جس سے ان کا تعلق ہے اپنی ہی سماج میں کم ہونے لگی۔تاہم مشکلات نے مایاوتی کو مکمل طور پر اپنے حربوں کو تبدیل کرنے والا بنادیا۔
انہوں نے پارٹی کی’’ انتخابات کے بعد کے اتحاد‘‘کی حکمت عملی کو ایک بازور رکھ کر ملک بھر میں اہم اتحاد قائم کرنے کی شروعات کی ۔
انہو ں نے جنتادل ( سکیولر) سے پچھلے سال اسمبلی الیکشن کے لئے کرناٹک میں ہاتھ ملایااور ریاست میں جے ڈی ( ایس) کانگریس اتحاد قائم کرنے میں اہم رول بھی ادا کیا۔
چھتیس گڑھ میں مایاوتی نے ریاست کے سابق چیف منسٹر اجیت جوگی کی جنتا کانگریس سے ہاتھ ملایا اور ٹھیک اسی طر ح وہ ہریانہ میں بھی نیشنل لوک دل سے ہاتھ ملائیں گی۔مذکورہ تمام تینوں پارٹیاں اور اسی کیساتھ اکھیلیش یادو نے کہہ دیاہے کہ وہ اگلے وزیراعظم امیدوار کے لئے مایاوتی کا ساتھ دیں گے۔
یقیناًکھیل بدلنے والے اتحاد قدیم روایتی حلیف اترپردیش میں ایس پی ہے اور اس کو یہ کیا کہہ رہے ہیں بوا اور بھتیجے کا اتحاد۔ اس اتحا د کا کامیاب تجربہ پچھلے سال منعقد ہوئے گورکھپو راو رپھلپور لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے طور پر سامنے آیا۔
لگائے گئے اندازوں کے مطابق لوک سبھا الیکشن میں این ڈی اے کی یہ واحد بڑی ہارہے۔ اگر یہ اتحاد بہت سارے لوگوں کی جانب سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق چالیس سیٹوں پر جیت حاصل کرسکتا ہے تو ریاست میں یہ بڑا مخالف بی جے پی بلاک ہوگا۔
اگر یہ ممکن ہوتا ہے تو وزیراعظم بننے کے لئے مایاوتی کے موقع کو یہ فروغ کی وجہہ بنے گا‘ اگر بی جے پی یا پھر کانگریس ا ن کے انتخابات کے بعد اتحاد کے موقف میں نہیں رہیں تو یہ بہت ممکن ہوگا۔اگر یہ جیسے ممتا بنرجی‘ ایک کے اسٹالن‘ کے چندرشیکھر راؤ‘ چندرا بابو نائیڈو اور نوین پٹانائک توایس پی بی ایس پی اتحاد سے زائد سیٹیں حاصل کرنا ہوگا اور کانگریس کو اپنی قابل قدر ریاستوں میں بھاری اکثریت سے جیت حاصل کرنی پڑی گی۔
مایاوتی کے لئے اور ایک کار آمد بات یہ ہوگی کہ وہ اب تک بھی غیر بی جے پی او رغیر کانگریس لیڈران میں دیگر کے مقابلے اکلوتی لیڈر ہیں۔سال1996سے ملک بھر میں بی ایس پی کا ووٹ شیئر چار فیصد ہی رہا ہے۔
پچھلے دو انتخابات 2009اور 2014میں کانگریس اور بی جے پی کے بعد یہ ووٹ شیئر میں تیسری بڑی سیاسی جماعت بنی ہے۔تاہم وز یر اعظم کے لئے مایاوتی کی امیدوار محض بی ایس پی کے متعلق نہیں ہے ۔ اس کا اہم جز مایاوتی کو ملنے والی اکھیلیش یادو کی حمایت بھی ہے۔