عالم اسلام ، نیا سال نئے چیلنج

اپنی تاریخ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے
’’دام ہم رنگ زمیں ہے‘‘ انھیں معلوم تو ہو
عالم اسلام ، نیا سال نئے چیلنج
نیا سال شروع ہوتا ہے تو عام طور پر گزرے ہوئے سال کی تلخ و شیریں یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ اقوام عالم کے لئے یہ ایک محاسبہ کا موقع ہوتا ہے۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا اور آئندہ اس کا اعادہ نہ کرنے کا عزم و عہد کرنا زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔ جو قومیں گزرے ہوئے کل سے سبق لے کر آنے والا کل بہتر بنانے کی جستجو نہیں کرتیں وہ کمزور ہوجاتی ہیں اور یہ مرض اگر مستقل روگ بن جائے تو صفحہ ہستی سے مٹادی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر گزشتہ سال شام کی خانہ جنگی کے نتیجہ میں پناہ گزینوں کے بدترین بحران کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہے گا اور یہ انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہوگا۔ شام میں خانہ جنگی ہنوز جاری ہے۔ بڑے ممالک کی پشت پناہی سے اسرائیل کے اس سرحدی ملک میں خون خرابہ ہورہا ہے۔ گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے جاری لڑائی میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ پناہ گزینوں کو آسرا فراہم کرنے والے بعض ادارے پناہ گزینوں کا مذہب تبدیل کرچکے ہیں اور ان کے نام تک بدل چکے ہیں۔ بظاہر شام کی لڑائی صدر بشارالاسد کی برقراری اور بیدخلی کے لئے حریف طاقتوں میں تصادم ہے لیکن اس خانہ جنگی کے ذریعہ اسلام کو رسوا کیا جارہا ہے اور عرب اتحاد میں رخنے ڈالے گئے ہیں اور فلسطینی کاز کو صدمہ پہونچایا گیا ہے۔ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض اسلامک اسٹیٹ نے خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے اور اس دہشت گرد تنظیم نے بدترین خون خرابہ کے ذریعہ اسلام کو انتہائی بدنام کیا ہے۔ دنیا بار بار پوچھے جانے والے اس سوال پر خاموش ہے کہ اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے والے کون ہیں۔ اسے مالیہ اور عصری ہتھیار سربراہ کرنے والے کون ہیں، خلافت کے دعویدار کا رُخ اسرائیل کیوں نہیں ہے یہ سارے خون خرابے عراق اور شام میں ہی کیوں کررہا ہے۔ دنیا اس حقیقت سے خوب واقف ہے کہ فلسطینی کاز کی سب سے پرزور تائید اور اسرائیل کی شدت سے مخالفت کرنے والے راست باز عرب ممالک کا جو محاذ قائم ہوا تھا، اس میں اہم رول عراق اور شام کا ہی تھا اور صدام حسین اور حافظ الاسد نے اسرائیل کے آگے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے۔ صدام حسین کو منظم سازش کے تحت پھانسی دی گئی اور اب حافظ الاسد کے بیٹے بشارالاسد کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے شام کو دوسرا لیبیا بنانے کی سازش پر عمل ہورہا ہے۔ کرنل قذافی کی ہلاکت کے بعد سے لیبیا میں مسلسل اقتدار کا خلاء پیدا ہوا ہے اور اب بھی لیبیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے اور وہاں دو متوازی حکومتیں کام کررہی ہیں اور تیل کے چشموں پر بااثر قبائیل کا کنٹرول ہے جو باہم متصادم ہیں۔ سعودی عرب کے سرحدی ملک یمن کی خانہ جنگی بھی گزشتہ سال مسلسل تشویش کا باعث بنی رہی اور یمن میں بھی دو متوازی حکومتیں کام کررہی ہیں۔ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے اور یمن کے صدر کو خانہ جنگی کے آغاز پر اپنی پوری کابینہ کے ساتھ سعودی ع میں پناہ لینی پڑی تھی۔ پھر سعودی عرب اور دوسرے حلیف ممالک کی مدد سے یمن کے بعض علاقوں پر سرکاری فوج کا کنٹرول قائم ہوا اور جلا وطن صدر اور ان کے وزراء ان علاقوں میں اپنی حکومت چلارہے ہیں۔ 2015 ء کے اختتام پر سعودی عرب کی سرکردگی میں 34 مسلم ممالک کا ایک محاذ قائم کیا گیا ہے۔ پہلے سے مسلم ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون کانفرنس اور عرب لیگ موجود ہے۔ عرب کاز کی تائید کے لئے افریقی اتحاد تنظیم بھی قائم ہے جس میں بیشتر مسلم ممالک موجود ہیں۔ آپسی اور علاقائی تعاون کے لئے تنظیموں کا قیام خوش آئند ہے لیکن محاذ آرائی سے تصادم ختم نہیں ہوتے۔ شدت اختیار کرتے ہیں اور ایسی صورتحال کسی بھی ملک یا علاقہ کے مفاد میں نہیں ہوسکتی جو ادارے یا محاذ بنتے ہیں انھیں کسی بھی تنازعہ کا فریق بنے بغیر تنازعہ کی یکسوئی کے لئے ثالث کا رول ادا کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ نے امریکہ اور برطانیہ کے آلہ کار کا رول ادا کرتے ہوئے دوسرے بین قومی اور ہمہ قومی اداروں کے لئے کوئی مثال قائم نہیں کی ہے۔ مصر ، شام ، عراق، لیبیا اور یمن کے سنگین حالات کا اسلامی تعاون تنظیم محض خاموش تماشہ دیکھتی رہی اور عرب لیگ نے بھی قیام امن اور صلح صفائی کے لئے کوئی ٹھوس اور قابل ذکر رول ادا نہیں کیا۔ اسلام کی سربلندی اور دین فطرت کی تبلیغ و اشاعت کے بنیادی فریضہ پر توجہ درکار ہے۔ سال 2015 ء میں بعض مسلم ممالک میں آپسی انتشار جہاں افسوسناک رہا وہاں مسلم اکثریتی افریقی ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے کی خوشخبری ملی۔ گزرے ہوئے سال تیل برآمد کرنے والے ممالک کو امریکی آئیل سے شدید مسابقت کا سامنا رہا۔ امریکی تیل کی عالمی منڈی میں بھاری مقدار میں سپلائی کے ذریعہ اوپیک کو تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے لئے مجبور کیا گیا اور پورا سال تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان رہا۔ تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے والے اوپیک کے رکن ممالک کی معیشت پر تیل کی گرتی قیمتوں کے منفی اثرات پڑے اور بعض رکن ممالک کو پہلی مرتبہ خسارہ بجٹ کا سامنا ہے۔ ایران سے اس کے نیوکلیر پروگرام کے حوالہ سے دبا تھا۔