اس مہینے کی 12تاریخ کو پورے برطانیہ کے گرجا گھروں میں ان فوجیوں کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی جان دی تھی۔واضح ہوکہ دونوں جنگوں میں چھ کرور سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔ گوکہ یہ جنگ عیسائیوں نے عیسائیوں کے خلاف چھیڑی تھی مگر بدقسمتی سے تر کی خلافت عثمانیہ او رجاپان کی بودھ شہنشاہی بھی اس میں الجھ گئی تھیں۔چونکہ اس وقت غیرمنقسم ہندوتان پر یونین جیک لہرارہاتھا اس لئے اس جھنڈے کی حفاظت کے لئے ہندوستان‘ پاکستان ‘ بنگلہ دیش او ربرما کے پچیس لاکھ جوان برطانوی حکومت نے بھرتی کر رکھے تھے او ران ہی تنخواہ دار فوجیوں میں سے تقریبا 5لاکھ نے حکومت برطانیہ سے وفاداری جتاتے ہوئے اپنی جانیں بھی دیں ۔
میرے دل میں اکثر یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ جن ہندوستانیوں نے اپنے برطانوی آقاؤں کے لئے جان نچھاور کی کیا وہ قابل احترام ہیں؟ اس موضوع پر اسی وقت لکھنا چاہتا تھا جب وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کے دور ے پر گئے تھے او رانہوں نے حیفہ میں اس یادگار پر پھول چڑھائے جو حکومت برطانیہ کے لئے جان دینے والے ہندوستانی فوجیو ں کی یاد میں قائم کی گئی تھی‘ مگر دوسرے موضوعات میں الجھ گیا او رلکھ نہیں سکا ‘ مگر اس کو مزید ٹالنا ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ ایک طبقے کی طرف سے دہلی کے تین مورتی سرکل کو حیفہ اسکوئر کان دئے جانے کا مطالبہ ہورہا ہے ‘ یعنی جو لوگ حکومت برطانیہ کے لئے مرے ان کو بھی یہ ملک شہید کا درجہ دے گا؟اگر تین مورتی کا نام بدلنا ہی ہے
تو اس کو کالا پانی اسکوئر کا نام دیا جانا چاہئے‘ جہا ں کتنے ہی وطن پرستوں کی زندگی کے چراغ کو بجھا دیاگیا؟برطانیہ کے وفاد فوجیو ں کی یاد میں حیفہ اسکوئر کیوں نے گا؟ ذرا سوچئے کہ انگریزوں کے ظلم و استبداد سے نجات پانے کے لئے جہاں ایک طرف ٹیپوسلطان ‘ تانتیا ٹوپے‘ بیگم حضرت محل اور جھانسی کی رانی کی وفادار افواج اس ملک پر قبضہ کرنے والوں سے مورچہ لے رہی تھیں تو وہیں دوسری طرف برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی سپاہی مجاہدین آزادی کی جان لے رہے تھے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک انہو ں نے اپنی جانیں اس لئے دیں کہ وہ حکومت برطانیہ کے نوکر تھے۔
کیسا المیہ ہے کہ ایک طرف تو رام پرساد بسمل ‘اشفاق اللہ خان ‘ چندرشیکھر آزاد ‘ بھگت سنگھ او ر لہری جیسے عظیم لوگ انگریزوں سے نجات پانے کے لئے پھانسی کے پھندوں پر جھول رہے تھے وہیں دوسری جانب چند سکوں کے لئے نہ کانتے کتنے ہندوستانی انگریزوں کی تھمائی ہوئی بندوقیں اٹھاکر کھڑے تھے۔کیاجلیاں والا باغ کے قتل عام کو کوئی بھول سکتا ہے ؟ سینکڑوں نہتے ہندوستانیوں پر گولی چلانے کا حکم تو جنرل ڈائر نے دیا تھا‘ لیکن گولیا ں چلانے والے سپاہی کون تھے؟ کیااس بٹالین میں کوئی بھی ہندوستانی نہیں تھا‘ مگر نوکری جانے کے ڈرسے اگر اپنے ہی بھائیوں پر گولیاں چلاتے ہوئے انگریزوں کے ان وفاداروں کے ہاتھ کنپنے تو ہمارے لئے قابل احترام یہ لوگ ہوسکتے ہیں؟
اسی طرح حیفہ ‘ برما ‘ عراق‘ یا نجد وحجاز میں جرمنی کی فوجوں سے ٹکرانے والے برطانوی فوجیوں کو کسی ہندوستانی وزیراعظم خراج تحسین کیامعنی رکھتا ہے؟ آخر میں کہتا چلوں کے جن لوگوں نے دہلی کی انڈیا گیٹ کے قریب سے نہیں دیکھا ہے ان کو معلوم نہیں ہوگا کہ انڈیا گیٹ کے پتھروں پر انگریزوں کے وفادار سینکڑوں ہندوستانیو ں کے نام کھدے ہوئے ہیں‘ ظاہر ہے میں کوئی ایسا نام نہیں ہے جو وطن کے کام آیاہو‘ مگر اب ان ناموں کو مٹانا ممکن ہیں ہے ‘ لیکن اس کے نیچے جو امرجوان جیوتی قائم کی گئی ہے اس کو تو ہٹاکر دوسری مقام پر قائم کیاجاسکتا ہے۔
یقیناًجوامر جوتی کی مشل انگریزوں کے لئے جان دینے والے برطانیہ کے وفادار کی یا دمیں نہیں ہے بلکہ 1962میں چین کے خلاف 1971اور 1965میں کرگل میں پاکستان کے خلاف ہونی والی جنگوں میں اپنی جان نچھاور کرنے والوں کی یاد میں روشن کی گئی ہے۔ اصولا تو ان ہی شہیدوں کے نام وہاں لکھے ہونے چاہئے تھے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے یا چین او رپاکستان کے حملوں کے وقت اپنی قربانیاں پیش کیں۔ہم کو معلوم ہے کہ برطانوی وفاداروں کے نام مٹانا اب ممکن ہیں ہے مگر انڈیاگیٹ پر ایسا کتبہ تو لگایا جاسکتا ہے کو ہمیں ان شہیدوں کی یاددلائے جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے یا ہندوستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں