تہران-ایران نے امریکا کی شام میں موجودگی کو ابتدا ہی سے ’غلط اور غیر منطقی‘ قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ زدہ شام سے اپنی فوجیوں واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ کے ترجمان بہرام غثمی نے ٹیلی گرام چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’اصولی طور پر شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا کوئی منطقی جواز نہیں تھا، اس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام بڑھا اور سیکیورٹی کے مسائل نے جنم لیا‘۔
خیال رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رواں ہفتے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات 2 ہزار فوجیوں پر مشتمل دستہ واپس بلوانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا یہ اقدام شام میں 7 سال سے جاری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکی صدر کے اعلان کے بعد ترکی اور امریکا میں جاری ایک مزاحمتی کشمکش کا خاتمہ ہوگا کیونکہ ایک طویل عرصے سے ترک صدر امریکا، اپنے نیٹو اتحادی، پر شام میں کرد باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ترکی، کرد باغیوں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے جس کی ایک شاخ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ہے، جو ترکی کے سرحدی علاقے میں کرد خود مختاری کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
جرمنی نے خبردار کیا تھا کہ شام سے فوجوں کی واپسی کا امریکی فیصلہ ’حاصل کردہ کامیاب نتائج‘ کو تباہ کردے گا۔ وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا تھا کہ ’داعش کو دھکیل دیا گیا لیکن خطرہ تاحال موجود ہے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’داعش کے خلاف لڑائی ختم کرنے کا فیصلہ ’عسکری اور سول تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے‘ کیا جائیگا۔ اس حوالے سے برطانیہ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کے باوجود داعش کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی ترجمان نے کہا تھا کہ ’داعش کے خلاف عالمی اتحاد سے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اس ضمن میں مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔