صدیوں سے اس ملک میں ہندؤوں او رمسلمانوں کی ملی جلی ثقافت کو گنگا جمنی تہذحب کہہ کر پکارا جاتا ہے او ردونوں قوموں کے اسی ملن کو سنگم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن جن دماغوں میں ایک ہی مذہب کاغلاف چڑھا ہووہ مشترکہ تہذیب کی کسی بھی علامت کو باقی نہیں رہنے دیں گے
۔یہ بات اب اس ملک میںیقینی ہوچکی ہے ۔ اترپردیش کی حکومت نے یوپی کے تاریخی شہر الہ آباد کا نام پر یاگ راج کرکے تاریخ کے ایک سنہری باب کو سیاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
واضح ہوکہ مغل شہنشاہ اکبراعظم دنیا کا پہلا ایسا حکمراں تھا جس نے مذہبی کے درمیان نفاق ڈالنے کے بجائے ان میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی‘ اکبرنے ہی دنیا کو سب سے پہلے سکیولر ازم کا سبق سیکھایا او رایک ہی چھت کے نیچے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بٹھاکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ خدا تو ایک ہی ہے صرف اس تک پہنچنے کے راستے الگ الگ ہیں۔
وہی شہنشاہ جب ایک بارپریاگ راج آیا اور اس نے سنگم کے دوسرے کنارے پر ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا او رشہر کے نام اس نے الہ باس(خدا کے رہنے کی جگہ)قراردیا۔
آپ پوری تاریخ پڑھ ڈالیں یہاں تک کہ سنگھ کے مورخوں او رتاریخ بدلنے کی کوشش کرنے والے فرقہ پرستوں کی بھگواروشنائی سے لکھی تاریخ بھی پڑھ لیں تو آپ کو ایسی کوئی سطر بھی نہیں ملے گی جہاں یہ لکھا ہوا کہ اکبر نے پریاگ راج کو تباہ کرکے کوئی شہر بسایاتھا۔
اصل میں اکبر کے زمانے میں پریا گ راج نام کا کوئی شہر تھا ہی نہیں۔ اس وقت گنگا جمنی کے کناروں سے کچھ دور کوشامی نام کا شہر تھا او رپریاگ راج کو ایک تیرتھ استھل کی حیثیت حاصل تھی۔
جہاں صرف سادھو سنت رہا کرتے تھے ‘ عام لوگوں کے تیرتھ استھلوں میں قیام کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی وہ تیج تہواروں کے موقع پر آتے تھے او رکیمپوں او راکھاڑوں میں قیام کرتے تھے۔
آج تک۔ آج تک یہ سلسلہ جری ہے جب کنبھ یا اردھ کا میلہ ہوتا ہے سنگم کے کنارے لاکھوں لوگ خیموں میں قیام کرتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ الہ آباد شہر کا اصل نام پہلے پریاگ راج تھا۔
تاریخ شاہ ہے کہ اکبر الہ باس کے نام سے ایک نیاشہر آباد کیاجس کا نام بعد میں شاہجہاں نے الہ اباد کردیا اور جب انگریزوں کی حکومت ائی تو انگریزی میں اس کانام (اللہ آباد ) لکھاجانے لگا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس جگہ پریا گ راج ہے وہاں آج بھی ایک ریلو ے اسٹیشن اسی نام سے موجود ہے ۔
اس لئے سمجھنا کہ اس شہر نام پریا گ راج کی محبت میں بدلاگیاہے بالکل غلط ہے۔ نام بدلنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عام ہندوؤں پر یہ ظاہر کیاجائے کہ حکومت ان کا بہت خیال رکھتی ہے۔دوسرا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہوتو اس کا فائدہ بھی اٹھایاجاسکے۔
ہمارے خیال میں اس مسلئے سے بہترین حل تو یہ ہوتا کہ حکومت پریاگ راج اسٹیشن سے ملحق علاقوں کو جوڑ کر پریا گ راج کو بھی ایک نئے شہر کے بطور ویسے ہی ترقی دیتی جیسے اس ے کوشامی کو کیاہے۔
اسی طرح دونوں شہروں کا تاریخی تشخص بھی برقرار رہتا او رکسی کو شکایت بھی نہ رہتی ‘ لیکن جب ہر چیز کا سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود ہوتو ایسی باتیں کون سوچتا ہے ۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی طر ف سے حیدرآباد‘ اورنگ آباد اور احمد آباد جیسے مسلم ناموں والے کئی بڑے شہروں کے نام بدلنے کی مہم بہت دن سے چل رہی ہے ویسے یوپی میں شہروں کے نام بدلنے کا سلسلہ بی جے پی نے نہیں شروع کیابلکہ مایاوتی نے اکبر پور‘ امروہہ‘ امیٹھی سمیت اٹھ شہروں کے نام بدل کر اس مہم کا آغاز کیاتھا
مگر اس وقت زیادہ شور اس لئے نہیں مچاتھا کہ مایاوتی کے ماتھے پر سکیولرزم کا لیبل لگا تھا ۔ بہر کیف اس سلسلے میں میرا تو یہی مشورہ ہے کہ بلاوجہہ کی بیان بازی کرنے کے بجائے اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایاجائے تو بہتر رہے گا۔