ساتھی نوبل انعام یافتہ گان نے روہنگی بحران کے لئے آن سانگ سوکی کا ذمہ دار ٹھرایا۔

ڈھاکہ/بنگلہ دیش۔ تین نوبل پیس انعام یافتگان نے پناہ گزین کیمپ میں موجود روہنگی مسلمانوں سے ملاقات کے بعد اپنے ساتھی نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوکی اور میانمار کی آرمی کو نسل کشی اور خطرناک تشدد کا ذمہ دار ٹھرایااور اس کے سبب ہزاروں لوگ بنگلہ دیش نقل مقام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

سوکی اپنے ملک کی ملٹری کی جانب سے پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بھلے ہی نظر نہیں رکھ سکتے ہو‘ مگر ساتھی انعام یافتگان نے کہاکہ میانمار کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔

یمن سے تعلق رکھنے والے توکل کامران نے سوکی پر زوردیا کہ وہ ’’ جاگ جائیں‘‘ یا ’’ اقبال جرم کریں‘‘ جبکہ نارتھ ائیرلینڈ کے میرٹ ماگیور اور ایران کے شرین عابدی نے اس کے ذمہ داران کے ساتھ انصاف کا بھروسہ دلایا۔

انعام یافتگان نے ڈھاکہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چہارشنبہ کے روز کہاکہ ان کے ایک ہفتہ طویل بنگلہ دیش دورے کے دوران وہ ان کیمپوں کا دور ہ کیا جہاں پر روہنگی مقیم ہیں۔تین انعام یافتگان نے نہایت جذبات انداز میں روہنگیوں کے خلاف تشدد کو’’ نسل کشی‘‘ قراردیا ہے۔

اور کہاکہ’’ یہ پر کوئی اور اختراع نہیں ہے سوائے نسل کشی کے ‘ نسل کشی بے قصور لوگوں کے ساتھ‘‘۔ کامران نے کہاکہ ’’ لاکھوں لوگ اپنے شہر سے نقل مقام کرچکے ہیں عورتوں( کے ساتھ( عصمت ریزی کی گئی ‘ تمام عورتوں کے ساتھ‘ ہم نے تقریبا ایک سو عورتوں سے ملاقات کی ‘ تمام کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم نے ان کے بچوں سے بات کی تو ان کی آوازیں مغلوب تھی۔ کامران نے کہاکہ ’’ جتنے بھی بچوں سے ہم نے ملاقات کی ۔

اپنے گھر والوں کے بغیرہی وہ بنگلہ دیش بھاگ کر آگئے ہیں‘ ان کے والدین یاتو والد یا پھر ماں کا قتل کردیاگیاہے‘‘۔ کامران سال2011کی ان تین نوبل انعام یافتگان میں شامل جس وقت آنگ سانگ سوکی کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ سوکی کو خاموش نہیں رہنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ’’ وہ ( سوکی) دنیا کو حقیقت نہیں بتارہی ہیں۔ انہیں اپنی خاموشی ختم کرنی ہوگی‘ انہیں جانگنے اور اس نسل کشی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

پچھلے سال اگست میانمار کی فوج اور مخالف روہنگی گروپ کے خطرناک اور جان لیوا حملوں کے بعد اب تک تقریبا سات لاکھ روہنگی میانمار چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں ۔

میانمار کی حکومت نے ظلم وزیادتی کی بات کا انکار کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف فوج’’ صفائی مہم‘‘ چلارہی ہے۔ عام طور پر سوکی ان کے ملک میں امن کے متعلق بات تو کرتی ہیں مگر انہوں نے کبھی روہنگیوں کو نام تک نہیں لیاجس کو میانمار کی حکومت نے اب تک تسلیم نہیں کیاہے۔عابدی نے روہنگیوں کے تئیں پڑوسی مسلم ممالک کے رویہ پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہم چاہتے ہیں اس کیس پر اقوام متحدکی سکیورٹی کونسل میں تبصرہ ہواور اس کے لئے ہمارے پاس درکار شواہد بھی موجود ہیں‘‘۔ بنگلہ دیش ملک میں رہ رہے پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لئے اس وقت تک تیار نہیں ہے جب تک روہنگیوں کی جان ومال کی تمانعت میانمار حکومت کی جانب سے مل جاتی ۔