رائزینگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کے فرزند تمہید نے کہاکہ’’ پاپا اصول پسند آدمی تھی‘‘

رائزینگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کے غمزدہ بیٹے تمہید نے اپنے مرحوم والد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک مکتوب لکھا۔
جموں اور کشمیر۔ میرے او رمیرے گھر والوں کے 14جون ایک خوفناک دن تھا۔

اس دن میں نے سنا تھا کہ میرے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ سر ی نگر پولیس کنٹرول روم(پی سی آر) میں اسپتال پہنچے کے بعد‘ میں نے کسی کو کہتے سناکہ ’’ وہ اب نہیں رہے‘‘۔ جس وقت میں نے یہ سنا میر ے پیر کانپ نے لگے مگر میں تمام امیدوں کے برخلاف امید میں تھے۔

ہزارو ں خیال میرے ذہن میں سیلاب برپا کررہے تھے۔ ہوسکتے ہیں وہ اب بھی اپریشن تھیٹر میں ہیں؟ہوسکتا ہے وہ میرے سامنے آکر مجھے گلے لگائیں گے؟

مگر میری تمام تواقعات ختم ہوگئی ۔میں اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے والد جیسے اچھا انسان شجاعت بخاری کے ساتھ کوئی اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہے۔

اسی دوران ہزاروں لوگ پی ایس آر میں اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چاہنے والے دوست او رگھر والے‘تمام کے چہروں پر غم صاف طور پر جھلک رہا تھا۔

میں اس وقت بھی جب میرے والد کی نعش کو اپنے آبائی گاؤں لے جانے کی تیاری کی جارہی تھی ‘ اس درد سے باہر نکالنے کی کوشش کررہاتھا۔

جب میں ایمبولنس میں رورہاتھا‘ میرے اندر اس بات کی بھی امیدتھی کہ وہ موت کی آغو ش سے اٹھ کر مجھے حیرا ن کردیں گے۔میرے والد اصول پسند انسان تھے۔

میںیہ بات دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ میرے والدکے اطراف واکناف میں ہزاروں لوگ جو ان سے حسد رکھتے تھے کی موجودگی کے باوجود وہ کسی کے ایک خلاف ایک لفظ کا بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔

وہ سونچنے والے تھے مگر اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا۔ وہ جانکاری ‘ معاف کرنے اور ہزاروں خصوصیات کے حامل تھے۔پاپا کبھی بھی اپنے اسٹاف سے عملے کی طرح سلوک کرتے بلکہ انہیں اپنی فیملی سمجھتے تھے۔انہوں نے اپنے اسٹاف کو مشورہ دیاکہ وہ انہیں بہترین بنائیں۔

و ہ ایک فلسفانہ سونچ کے حامل تھے اور انہوں نے 2014میں کشمیر میں ائے حولناک سیلاب میں مشکل سے کچھ وقت گھر پر گذارتھا ‘اس کے بجائے وہ سیلات میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے کام میں لگے رہے انہوں نے سیلاب سے متاثرہ ہزاروں لوگوں کی مدد کی ہے۔

پاپا نے کبھی بھی ہم سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ انہو ں نے سینکڑوں خاندانوں کی مدد کی ہے۔ وہ ایک ایسے بیٹے تھے جنھوں نے سچائی کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے والدین کا سرفخر سے اونچاکیاتھا ۔

وہ امن کے لئے تمام عمر کام کرتے رہے اور اسی کے لئے ہی شہید بھی ہوئے۔

ان کا ماننا تھا کہ ایک روز کشمیر بے قصور کے قتل سے پاک ہوجائے گا۔ انہیں کشمیر زبان او رکشمیر کی لسانی تہذیب کے متعلق جنون تھا۔

اپنی مادری زبان سے انہیں بے انتہا محبت تھی او ران کا دیرینہ خواب تھا کہ کشمیری زبان اسکول کی دسویں جماعت میں پڑھائی جائے جو جون 2017میں شرمندہ تعبیر ہوا ۔

کشمیر میں امن کے لئے دنیا کے تمام براعظم میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں انہو ں نے شرکت کی ۔ ان کے دو اور رشتے کے بھائی دہشت گردوں او رفوج کے درمیان 1990کے دہے میں ہوئی فائیرنگ کے تبادلے کے دوران گولی لگنے سے موت ہوئی اور اب ان کی موت سے ہمارے خاندان کے تین لوگوں کشمیربحران میں مارے گئے ہیں۔

کشمیر کی انگریزی صحافت نے کئی عظیم رپورٹرس او رایڈیٹرس اور کچھ ہیروز کو پیش کیاہے‘ مگر شہید کونہیں۔ مگر اب یہ دونوں کی پیشکش ہوگئی ہے۔

وہ ہمیشہ غیر جانبدارانہ صحافت کرتے تھے اور انہوں نے کبھی اپنے بھائی کی بھی طرف داری نہیں کی جو ایک سیاست داں ہیں۔

ان کی چیز سے ہر کسی کو جذباتی لگاؤتھا اور وہ انہیں موثر اتھاریٹی کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہی وجہہ ہوسکتی ہے وہ ہر کسی سے محبت کرتے تھے۔

یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ دس سالوں سے کم وقفہ میں رائزینگ کشمیر ریاست جموں کشمیر کا سب سے پسندیدہ اور قابل بھروسہ اخبار بن گیا۔اگر اوپر والا چاہتا تو دوسال قبل ہی ان کی موت اسو قت ہوجاتی جب انہیں اسٹورک ہوا تھا ۔ اللہ تعالی نے انہیں رمضان کے جمعتہ الوداع کے لئے محفوظ رکھ دیا۔

اس بے رحم دنیا میں ان کی جگہ نہیں تھی۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلالیا۔ اللہ تعالی انہیں جنت میں اونچا مقام عطا کرے