ذمہ داری کا احساس

حامد پانچویں کلاس کا طالب علم تھا۔ پڑھائی میں بہت اچھا اور کافی ذہین تھا۔ ہر سال نمایاں نمبرات سے امتحانات میں کامیاب ہوتا، لیکن اس میں صرف ایک بُری عادت تھی کہ وہ اپنی چیزیں اکثر اِدھر اُدھر چھوڑ دیا کرتا تھا، خاص طور پر اسکول کی چھٹی کے بعد کوئی نہ کوئی کاپی یا کتاب چھوڑ کر آجاتا اور اگلے دن چوکیدار اس کی چھوڑی ہوئی چیزیں اسے واپس دے دیتا۔ ایک دن وہ اسکول سے واپس آیا اور کھانا کھاکر سوگیا اور اُٹھنے کے بعد جب اس نے اسکول کا کام کرنے کیلئے اسکول کا بستہ کھولا تو ایک دَم پریشان ہوگیا۔ اس کے دادا جان قریب ہی بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے حامد سے پوچھا کہ کیا ہوا بیٹا؟۔ حامد نے کہا کہ دادا جان میری انگریزی کی کتاب نہیں مل رہی ہے کیونکہ دادا جان حامد کی عادت سے واقف تھے، اسی لئے دادا جان نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ تم اسکول میں بھول کر آگئے ہو، تو حامد نے شرمندہ ہوکر کہا کہ جی دادا جان ہوسکتا ہے۔حامد دادا جان کے ساتھ اسکول جانے کیلئے تیار ہوا تاکہ چوکیدار سے اجازت لے کر اسکول کے اندر سے کاپی نکال کر لائے کیونکہ اگلے دن کیلئے حامد کو ٹیسٹ کی تیاری کرنی تھی، لیکن افسوس کہ چوکیدار تو شام تک جاچکا تھا۔ لہذا وہ مایوس ہوکر گھر لوٹ گیا اور کافی دیر تک پریشان اپنے کمرے میں سوچتا رہا۔ اچانک سے دادا جان کمرے میں داخل ہوئے اور کاپی حامد کے سامنے رکھ دی۔ حامد ایک دَم سے چونک گیا کہ یہ کاپی کہاں سے آئی‘ تو دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تو چوکیدار نے مجھے اُس وقت لاکر دی تھی جب تم دوپہر کو سورہے تھے لیکن ہم نے اس بات کو چھپا کر رکھا تاکہ تمہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوکہ چھٹی کے وقت جلدی جلدی بھاگنے کے بجائے اپنی تمام چیزوں اور کاپی کتابوں کو اچھی طرح سے چیک کرنا چاہیئے تاکہ کوئی چیز رہ نہ جائے، اس سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح حامد نے دادا جان سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی بھی اپنی چیزیں چھوڑ کر نہیں آئے گا۔