۔40دہشت گردوں کی ہلاکت کا امکان ، سات مورچے تباہ، سربراہ فوج جنرل رنبیر سنگھ کی پریس کانفرنس
قومی کمیٹی برائے سلامتی کا مودی کی صدارت میں اجلاس، تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ طور پر کارروائی کی تائید
نئی دہلی ۔ 29 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) پہلی بار ہندوستان نے خط قبضہ کے پار فوجی دراندازی کے ذریعہ دہشت گردوں کے ساتھ پیاڈس پر ’’سرجیکل حملے‘‘ کئے جن سے نمایاں تعداد میں ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ یہ دہشت گرد پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے ہندوستانی سرزمین پر دراندازی کرنا چاہتے تھے۔ قبل ازیں وزیراعظم نریندر مودی نے انتباہ دیا تھا کہ اری کے حملہ آوروں کو سزاء دیئے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا۔ خط قبضہ کے پار دہشت گردوں نے 7 مورچے قائم کئے تھے جن پر 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی رات میں پانچ گھنٹوں طویل کارروائی کے دوران ہندوستانی فوج نے سرجیکل حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں ہیلی کاپٹر سوار اور زمینی فوج استعمال کی گئی۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے بموجب پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں خط قبضہ کے پار دو تا تین کیلو میٹر کے درمیان دہشت گردوں نے مورچے قائم کئے تھے جن پر گذشتہ ایک ہفتہ سے نظر رکھی جارہی تھی۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ کپواڑہ اور پونچھ کے پانچ یا چھ مقامات تھے۔ نائیڈو نے کہا کہ کسی ہندوستانی کی ہلاکت واقع نہیں ہوئی۔ حملوں کا اعلان پاکستانی دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے ہندوستانی فوجی کیمپ واقع اری (جموں و کشمیر) پر حملہ کے 11 دن بعد کیا گیا۔ مودی نے کہا تھا کہ حملہ آوروں کو سزاء دیئے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا۔ انہیں معاف نہیں کیا جائے گا اور 18 فوجیوں کی ہلاکت ضائع نہیں ہوگی۔ سربراہ فوج لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے اس کا اعلان کیا۔ اری کے دہشت گرد حملہ کے بعد این ڈی اے حکومت کو زبردست دباؤ کا سامنا تھا کہ پاکستان کے حملہ کا طاقتور جواب دیا جائے۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے بموجب ساتوں مورچوں میں 40 دہشت گرد موجود تھے اور امکان ہیکہ وہ سب ہلاک ہوگئے۔ تاہم سرکاری طور پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ قابل اعتماد اور واضح اطلاعات کے بموجب بعض دہشت گرد ٹیمیں خط قبضہ کے پار مورچے قائم کئے ہوئے تھیں۔ ان کا مقصد دراندازی اور جموں و کشمیر کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دہشت گرد حملے کرنا تھا۔ فوج نے کل رات ان مورچوں پر سرجیکل حملے کئے۔ جنرل سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا انکشاف کیا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ تاہم پاکستان نے حقیقت کو مسخ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس بیان کی تردید کردی کہ ہندوستان نے خط قبضہ کے پار دہشت گردوں کے مورچوں کو نشانہ بناتے ہوئے فوجی کارروائی کی ہے۔ پاکستان نے اسے ہندوستان کی ذرائع ابلاغ کیلئے مبالغہ آرائی قرار دیا اور کہا کہ اسی وجہ سے سرحدپار فوجی کارروائی کو سرجیکل حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستانی فوج نے اسلام آباد میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان نے کوئی سرجیکل حملہ نہیں کیا بلکہ سرحدپار فائرنگ کا آغاز کردیا۔ جنرل سنگھ نے کہاکہ وہ پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل فوجی کارروائیوں سے بات کرکے ہندوستان کے اندیشوں سے انہیں واقف کرواچکے ہیں۔ علاوہ ازیں کارروائی کی تفصیلات سے بھی واقف کرواچکے ہیں۔ ذرائع کے بموجب کارروائی میں بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔ فوجی کارروائی پیرا کمانڈوز نے کی تھی۔ تھرمل تصاویر اور اعلیٰ نقاب پوش روشنیاں بھی کارروائی کے دوران سات مورچوں کو تباہ کرنے استعمال کی گئیں۔ فوج کے 3 ڈیویژن حملہ میں شامل تھے۔ مورچے جو خط قبضہ کے قریب تھے، حملوں کیلئے منتخب کئے گئے تھے۔ محکمہ سراغ رسانی کی اطلاعات سے معلوم ہوا تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر دراندازی کیلئے عسکریت پسند مورچوں پر جمع ہوگئے ہیں۔ کپواڑہ کے مقابل چار مورچے خط قبضہ سے بمشکل 300 کیلو میٹر کی دوری پر تھے جنہیں بھاری فائرنگ کے ذریعہ فوج نے تباہ کردیا۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ فوجیوں کو منتقل کیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج نے کہا کہ یہ کوئی سرجیکل حملہ نہیں تھا بلکہ کیمپوں میں موجود افراد پر فاصلہ سے فائرنگ کی گئی تھی۔ یہ اچانک فائرنگ تھی۔ وزیراعظم مودی نے کابینی کمیٹی برائے سلامتی کے اجلاس کی صدارت کی۔
صدرجمہوریہ پرنب مکرجی، چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے علاوہ سرجیکل حملہ کے بارے میں دیگر اہم افراد کو اطلاع دے دی گئی تھی۔ سیاسی پارٹیوں بشمول اہم اپوزیشن کانگریس نے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کی تائید کی اور فوجی کارروائی کی ستائش کی۔ معتمدخارجہ ایس جئے شنکر نے 25 ممالک کے سفیروں بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کو تفصیلات سے واقف کروایا گیا۔ جنرل سنگھ نے کہا کہ کارروائی کی تفصیلات کا مرکز توجہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ دہشت گرد دراندازی اور ملک کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالنے کے اہم اور گھناؤنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس انسداد دہشت گرد کارروائیوں کے دوران نمایاں طور پر دہشت گردوں کی ہلاکتیں اور ان کی تائید کی کوشش کرنے والے افراد کی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کارروائیوں کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ تھا۔ چنانچہ اب کارروائیاں بند کردی گئی ہیں۔ ہم مزید کارروائیوں کے تسلسل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ تاہم ہندوستانی مسلح افواج کسی بھی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ ہندوستان علاقہ میں امن و خیرسگالی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم دہشت گردوں کو خط قبضہ کے پاس کارروائیاں کرکے محفوظ طریقہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وہ ہمارے شہریوں پر حملے کررہے ہیں۔ پاکستان کا موقف جنوری 2004ء میں یہ تھا کہ اپنی سرزمین کو کسی بھی قسم کی ہندوستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم پاکستانی فوج سے تعاون کی توقع رکھتے ہیں جس کا مقصد ہمارے علاقہ سے دہشت گردی کی لعنت کا صفایہ ہے۔ وزیردفاع منوہر پاریکر نے کامیاب کارروائی پر فوج کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اپنا پیام مبارکباد ٹوئیٹر پر تحریر کیا۔