یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر فلسطینی عیسائیوں نے مغربی کنارہ کے بیت الحم میں احتجاجی مظاہرے کے دوان امریکہ پرچم اور صدر ٹرمپ کی تصوئیر نذر آتش کی ۔فلسطینیوں کے ایک چھوٹے گروپ نے ٹرمپ مردہ باد اور یروشلم فلسطین کا دل تحریر کئے ہوئے پلے کارڈس ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔ایک سینئر افیسر نے کہاکہ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاوزمیں ایک بجے کے وقت یہ اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت یروشلم کو اسرائیل کی نئی درالحکومت تسلیم کرتی ہے‘‘۔
سینئر افیسر نے اپنی پہچان چھپانے کی شرط پر بتایا کہ ’’ان کی رائے میںیہ فیصلہ تاریخی اور زمینی حقیقت کے بعید ہے‘‘۔ اس کام میں مزید پیچیدگی پیدا کرتے ہوئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب شہر سے مسلمانوں ‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے مقدس سمجھے جانے والے شہر میں یروشلم کومنتقل کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
مذکورہ افیسر نے بتایا کہ’’ نئے مقام پر تعمیر کے سکیورٹی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی تعمیر کے لئے فنڈز کی اجرائی کو کچھ وقت لگے گا‘ اس کے لئے کچھ سالوں یاپھر مہینوں کا وقت لگ سکتا ہے‘‘۔پرتشدد احتجاج کی توقع کے باوجود ٹرمپ نے اعلان کیا ہے ۔ ٹرمپ نے فلسطینی او راردن انتظامیہ سے سفارت خانہ کی تبدیلی کے متعلق فون پر بات بھی کی ہے۔
تقریبا دو دہوں سے جاری اس تنازع پر سکیورٹی کے پیش نظر عملی اقدام سے قبل یہ صاف نہیں ہوا ہے کہ امریکہ قانون بنانے کے بعد یہ اس کام کو انجام دے گا۔چہارشنبہ کے روز سینئر فلسطینی عہدیداروں نے کہاکہ ’’ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قبول کرنے کے بعد امن مذاکرات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
کیونکہ واشنگٹن نے پہلے ہی اس کے نتائج ظاہر کردئے ہیں۔ٹرمپ کی جانب سے فیصلہ لئے جانے کے بعد منگل کے روز امریکی سکیورٹی میں تبدیلی کا انتباہ دیاگیا۔امریکہ کے قونصلیٹ متعین یروشلم او ران کے گھر والوں کے بشمول دیگر عہدیداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مغربی کنارہ او ریروشلم جانے سے باز رہیں۔ پولیس اور ملٹری کی موجودگی والے حساس علاقوں پر بھی جانے سے امریکیو ں پر زوردیا۔