حیدرآباد۔بہار کا مظفر پور ان دنوں عصمت ریزی کے ایک گھناؤنے جرم کی وجہہ سے سرخیوں میں ہے۔ مختلف ذرائع سے ملنے والیتفصیلات کے مطابق مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں تقریبا چالیس لڑکیو ں کے ساتھ جن کی عمر7سے14سال بتائی جارہی ہے مسلسل عصمت ریزی کی گئی۔
مگر اب اس بات کی توثیق ہوگئی ہے کہ مذکورہ شیلٹر ہاوز میں رہنے والی 34لڑکیوں کے ساتھ عصمت ریزی کا گھناؤنہ جرم مسلسل انجام دیا جاتا رہا ہے۔
لڑکیو ں نے اسپیشل پی او سی ایس او کورٹ میں دئے گئے اپنے بیان میں کہاہے کہ انہیں اذیت پہنچائی جاتی تھی‘ انہیں باندھ کر رکھاجاتا اور نشہ کرایاجاتا تھااور ہر رات ان کی عصمت کو تار تار کیاجاتا ۔
مظفر پور میں ’’ بالیکا گراہا‘‘ کے نام سے چلائی جانے والے اس شیلٹر ہاوز کو چلانے والی این جی اوز کا نام سیوا سنکلپ و ویکاس سمیتی تھااور اس سربراہ برجیش ٹھاکر تھا۔
برجیش کے اپنے تین ذاتی نیوزپیپرس تھے اور رائیل اسٹیٹ کا روبارتھا اوروہ علاقائی سطح پر غنڈہ گردی بھی کیاکرتا تھا۔ یہا ں پر عصمت ریزی کے متاثرین کے بیان کے کچھ حصہ کا خلاصہ بھی کیاجارہا ہے جس کو پڑھ کر آپ حیرت زدہ ہوجائیں گے
۔’’سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی لڑکیوں میں خوف طاری ہوجاتا تھا۔ راتیں وہاں پر دہشت کی ہوا کرتی تھیں‘‘ ۔
لڑکیو ں کے مطابق’’ اس ( برجیش) کی مخالفت کرنے والی لڑکیوں کی وہ لاٹھیوں سے پیٹائی کرتا تھا‘‘۔لڑکیو ں کے مطابق’’ جب بھی برجیش ان کے کمرے میں داخل ہوتا تو لڑکیاں خوف کے عالم میں تھرتھرانے لگتی تھیں۔ اس کو ہنٹر والا انکل کے نام سے پہنچانا جاتا تھا‘‘۔
ایک دس سالہ لڑکی نے کہاکہ عصمت ریزی کے قبل اس کو ہمیشہ نشہ کرایاجاتا تھا۔ جب اس کو ہوش آتا تو کراب کے ساتھ جگاتے اور اس جسم پر زخموں کے نشان رہتے۔اس نے کہاکہ’’ جب نے اس مزاحمت کی کوشش کی تو تین دنوں تک اس کو بھوکا رکھا گیاتھا
۔ میں نے برجیش سر کے سامنے جاکر خود سپردگی اختیار کرتے ہوئے معافی مانگی ‘‘۔لڑکی نے بتایا کہ ’’ میرے کھانے میں نشہ وار دوائیں ملائیں گئی۔
جب میں نے وہاں پر موجود عورتوں سے کہاکہ مجھے نیند آرہی ہے تو ‘ انہو ں نے مجھے برجیش سر کے کمرے میں جاکر سونے کوکہا‘ دوسرے دن صبح جب میں نیند سے بیدار ہوئی تو میں اپناپیٹنٹ تلاش کیاجو دور زمین پر پڑا ہوا تھا۔
لڑکی کا کہنا ہے کہ ’’ برجیش سر مجھے آفس میں طلب کرتے ہوئے اور میرے جسم کے نجی حصوں کو بری طرح کریدتے ‘ اس حد تک وہا ں پر زخم پڑجاتے جیسا کسی نے اپنے دانتوں سے کترا ہو۔
وہ ہمیشہ راتوں میں برہنہ سونے پر مجبور کرتے ‘‘۔ مذکورہ لڑکی کے مطابق’’ نفرت کی وجہہ سے ایک لڑکی نے برجیش سر کی تصوئیر پر تک تھوک دیاتھا۔
اس بربریت کے خلاف آواز اٹھانے والی ایک لڑکی کو مبینہ طور پر اس قدر پیٹا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی جس کی نعش کو اٹور کشا میں رکھا منتقل کیاگیاتھا۔
علاقے میں برجیش کا خوف اس قدر تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ مارپیٹ کی آوازیں سننے کے بعد بھی علاقے کے لوگ اس کے خلاف شکایت کرنے سے خوف کھاتے تھے۔
پورے بہار میں شیلٹر ہوم کی حالت زار پر حالیہ دنوں میں جاری کردہ ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشیل سائنس کی رپورٹ میں بھی اس بات کے اشارے ملتے ہیں۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے جمعرات کے روز اس کیس کی سی بی ائی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
اب تک پولیس نے برجیش ٹھاکر کے بشمول دس لوگوں کو حراست میں لے ہے۔ تاہم اتنے بڑے پیمانے پر پیش ائے عصمت ریزی کے واقعہ پر اب بھی ہم خاموش ہیں۔
عصمت ریزی کا واقعہ34لڑکیو ں کے ساتھ پیش آیاجو یتیم ہیں مگر کوئی آواز نہیں‘ نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی کوئی موم بتی مارچ اور کسی کے ہاتھو ں میں پلے کارڈس نہیں۔
یہا ں تک کے مقامی میڈیا چینانل نے بھی اس واقعہ اتنی اہمیت نہیں د ی۔ کیو ں؟ کیونکہ برجیش ٹھاکر کے میڈیا سے تعلقات ہیں؟کیونکہ شیلٹر کوئی آشرم ‘مشنری یا مدرسہ نہیں ہے؟کیونکہ یہاں پر کوئی مذہبی یا سیاسی زوایہ نہیں ہے؟یا پھر وہ 42لڑکیاں ہمارے بچے نہیں ہیں‘ ان کے والدین نہیں ہیں جس سے وہ اپنا درد بانٹ سکیں؟۔
ایک معاشرے کے طور پر ہم اپنے بیٹیوں کے سامنے ناکام ہوجائیں گے اگر اس طرح کے واقعات پر خامو ش رہے تو۔ حقیقت یہ ہم منافق ہوگئے ہیں اور ہمارا مفاد عصمت ریزی کرنے والے کے مذہب ‘ سیاسی وابستگی پر منحصر ہے۔جاگو انڈیا جاگو