بھگوا تنظیم کو روکنے کے لئے مایاوتی کا ماسٹر اسٹروک تمام سیکولر سیاسی پارٹیو ں کے سبق آموز اقدام

حیدرآباد۔ اترپردیش کے ضمنی انتخابات میں مایاوتی کے ماسٹر اسٹروک کے زعفرانی خیمہ میں ہلچل پید ا کردی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یوپی میں دو اہم سیٹوں گورکھپور اور پھلپور جو کٹر ہندوتوا لیڈر اور چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کے نائب کیشو پرساد موریہ کے اپریل2017کے بعد یوپی اسمبلی میں داخل ہونے کے بعد خالی ہوئی تھیں پر شکست کا منھ دیکھنا پرا۔

سماج وادی پارٹی جس کو بہوجن سماج پارٹی کی حمایت حاصل رہی نے گورکھپور لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کو 21916ووٹوں کی ایک بڑی مارجن سے شکست دی اور پھلپورضمنی الیکشن میں بی جے پی کے کوشیلیندر سنگھ پٹیل کو سماج وادی پارٹی کے امیدوار ناگیندر پرتاب سنگھ پٹیل نے 59613ووٹ کی مارجن سے پچھاڑ دیا۔

ضمنی الیکشن کے نتائن نے ثابت کردیا ہے کہ اترپردیش میں مایاوتی اب بھی ایک بڑی طاقت ہے اور اپنی اتحادی پارٹی کے حق میں ووٹ ٹرانسفر کی ان کی قابلیت پر کوئی سوال نہیں کیاجاسکتا۔جب مایاوتی سماج وادی پارٹی کے ساتھ اپنی پچیس سال کی قدیمتی اور روایتی دشمنی دفن کرسکتی ہیں‘یہ صحیح وقت ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں بشمول بی ایس پی‘ ایس پی‘ کانگریس اور اجیت سنگھ کی راشٹراہ لوک دل اپنی انا کو طاق پر رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر ساتھ اجائیں تاکہ بڑھتے بھگوا اثر کو روکا جاسکے۔

جیسا کہ’ متحدہ اپوزیشن‘کا فارمولہ اترپردیش میں اپنا کام کرگیا اگر اس کو جاری رکھا گیاتو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ 2019میں بھی یہ اتحاد کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔عظیم اتحاد یقینی طور پر این ڈی اے کی کارکردگی پر حاوی رہے گا۔

گورکھپور کا جائزہ
یہاں پر 1998سے یوگی ادتیہ ناتھ کا قبضہ تھا۔ وہ اس وقت سب سے کم عمر رکن پارلیمنٹ تھے جس کی عمر 26سال تھی۔اس سے قبل تین مرتبہ یہاں سے ان کی سرپرست ادوید ناتھ منتخب ہوتے رہے۔ سال2014میں یوگی ادتیہ ناتھ کسی بھی 51فیصد ووٹ کے تناسب سے 530127ووٹ حاصل کرنے کے بعد سرفہرست آگئے۔

دوسری جانب پھلپور لوک سبھا سیٹ نہایت اہمیت کی حامل ہے جہاں پر صرف2014میں بی جے پی نے اپنا قبضہ جمایا۔ یہاں سے سابق میں جواہرلال نہرو‘ ان کی بہن وجئے لکشمی پنڈت اور سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ نے نمائندگی کی تھی۔ ڈپٹی چیف منسٹر اترپردیش کیشو پرساد موریہ نے 54.43فیصد ووٹ شیئر سے 503564ووٹ حاصل کرتے ہوئے یہاں پر اپنا قبضہ جمالیاتھا۔

۔مگر مایاوتی نے بھگوا پارٹی کے زیر اثر ریاست کے شمالی حصہ میں اپنی حکمت عملی کو انجام دینے کے لئے روڈ میاپ تشکیل دیا۔

محض ایک دن میں گورکھپور اور پھلپور پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں انہوں نے انتخابی مہم چلائی اور اس کے لئے پارٹی کیڈر کو ہدایت دی کہ وہ سماج وادی پارٹی امیدواروں کی حمایت میں ایک سو نکڑ سبھاؤں( کارنر میٹنگ) کا انعقاد عمل میں لائیں۔بھگوا پارٹی کے لئے مذہب اور طبقہ ان کی شناخت ہے اور و ہ کبھی بھی دلتوں کے ساتھ انسانوں جیساسلوک نہیں کرتے۔

بی جے پی نے دلتوں اور مسلمانوں کو دور رکھ کر خود کا سماجی اتحاد قائم کیا جو اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھگوا رنگ کے بڑھتے اثر پر روک لگانے میں مددگار ثابت ہوا۔اگر ہم 2017کے اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو اس میں یہ بات صاف طور پر سامنے ائے گی کہ ایس پی ‘ بی ایس پی ‘ کانگریس کے درمیان میں تقسیم ووٹو ں کا بڑا فائدہ بی جے پی کو ہوا ہے۔

ایس پی اور بی ایس پی نے یوگی ادتیہ ناتھ کو شکست دینے کے بجائے ایک دوسرے کے مدمقابل اپنے امیدوار کھڑا کئے۔اگر ایس پی ‘ بی ایس پی ‘ کانگریس اور آر ایل ڈی کے ووٹ شیئر کو ملادیں تو یہ 2017کے اسمبلی الیکشن میں52فیصد تھے۔

بہار کی سیاست
سوشیل انجینئرنگ کی ماہر بہن جی( مایاوتی) نے بہار کی سیاست میں بھی اہم رول اد اکیااوردوسکیولر پارٹیوں لالو کی آر جے ڈی اور مانجھی کی ایچ اے ایم کے درمیان اتحاد کرادیا۔راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد کو ہوئے جیل نے تمام سیکولر پارٹیوں کو اس بات کا اشارہ کردیا کہ یاتو وہ ایک ہوجائیں یا پھر جیل کو اپنا گھر بنالیں۔

درایں اثناء لالو پرساد یادو نے دلت لیڈر کانشی رام کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر ایک عظیم انقلابی شخصیت قراردیتے ہوئے بھارت رتنا کے اعزاز سے نوازنے کی بات چھیڑ دی۔

لالو کے ایک ٹوئٹ کے مطابق کانشی رام ایک عظیم انقلابی محرک تھے او رسماج وادی پارٹی کے ساتھ بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے اترپردیش کے دو لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی ’’منووادیوں‘‘اور ’’نفرت پھیلانے ‘‘ والی طاقتوں کی شکست بڑے دلت لیڈر کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر ایک عظیم خراج سے کم نہیں ہے

کچھ ماہ قبل لالو پرساد یادو نے بی ایس پی سربراہ مایاوتی کو راجیہ سبھا سیٹ کی پیشکش کی تھی

سیاست ویب ٹیم کی پیشکش