طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے بعد بی جے پی کا یونیفارم سیول کوڈ کو نافذ کرنے کا اشارہ
نئی دہلی۔ بی جے پی نے جمعرات کو لوک سبھا میں تین طلاق پر بل منظورہونے پر بڑی سیاسی جیت کی طرح جشن منایا۔ پارٹی کے صدر امیت شاہ نے اسے ایک تاریخی قدم قراردیا ۔ تاہم راجیہ سبھا میں بل کو منظور کرنا حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگا کیونکہ وہاں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ ساتھ ہی پارٹی کو ریاستی پارٹیوں سے مدد کی امید بھی کم ہے ۔ پھر بھی بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس بل کو لوک سبھا میں پاس کرانے کے بعد وہ اپنے مقاصد کے حصو ل کی جانب سے پہلا قدم بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔
ساتھ ہی پارٹی نے یونیفارم سیول کوڈ پر اپنی بدلی حکمت عملی کا اشارہ بھی دیاہے۔مانا جارہا ہے کہ تین طلاق پر اس حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کے بعد بی جے پی کا اگلا قدم ایک سے زائددشادیاور حلالہ جیسے متنازغ رواج کے خلاف ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں’ سکیولر‘ مخالفین کو شبہ یہ ہوگا کہ ایسی چیزیں مخالفت کس طرح کریں‘ جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان برابری کی بات کی جارہی ہے ۔
خاص طور پر شاہ بابو جیسے معاملے کے بعد کانگریس لیڈرشپ کے لئے ایسا کرناآسان نہیں ہوگا۔لوک سبھا میں بل پاس ہونے کے فوراً بعد بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کہاکہ ’’میں اس بل کی حمایت کے لئے تمام ساتھی ممبران پارلیمنٹ کاشکریہ ادا کرتاہوں۔ اس بل سے مسلم خواتین کی زندگیوں میں امیدوار اور احترام کا نیا دورشروع ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی خواتین کو انصاف دلانے کے لئے پرعزم ہے ‘ جو مذہب یا ذات پر مبنی نہیں ہے۔ حزب اختلاف نے اس بل کو یہ کہتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ بی جے پی اس کی آڑ میںیونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنے کے لئے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی نے اس الزام کو غلط قراردیا ہے ۔
دراصل بی جے پی نے جس طرح سے تین طلاق کو مجرمانہ فعل بتانے والے بل کی مضبوطی کے ساتھ حمایت کی ہے ‘ وہ پارٹی کی حکمت عملی میں ائی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یونیفارم سیول کوڈ کے بارے میں پہلے پارٹی کی سوچ یہ تھی کہ اسے ایک ہی بار میں نافذ کرنے کی راہ میں آگے بڑھا جائے ‘ لیکن اب بی جے پی نے اس معاملے میں آہستہ آہستہ اور جارحانہ رخ اختیار کیے بغیر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔پارٹی نے یہ بھی طئے کیا ہے کہ تین طلاق پر لائے گئے بل کو ’جنڈر جسٹس‘ کی راہ میں ایک قدم کے طور پر پیش کیاجائے گا۔
ایسا کرنے کافائدہ یہ ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں ایک حد سے آگے جاکر بل کی مخالفت نہیں کرپائیں گے۔ ساتھ ہی بی جے پی کے مخالف او ربائیں بازواور کانگریس کے حامی مانے جانے والے کارکنوں کاکام مشکل ہوجائے گا۔بی جے پی ممبر پارلیمنٹ میناکشی لیکھی نے اس بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران جب اس کے ایک حصہ کو سابق مرکزی وزیر عارف محمد خان کو وقف بتایا تو محض اتفاق نہیں تھا۔
مسلم خواتین کے حقوق کے لئے لڑنے والے عارف نے شاہ بانو معاملے کے بعد راجیو گاندھی کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ لیکھی نے کہاکہ آج کچھ ممبران اس بل میں الاؤنس کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہے ہیں ‘ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شاہ بانو کیس میں کانگریس نے اس کا الیزام کرنے سے انکار کردیاتھا۔