اتحادی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ترکی برانڈ کی اسلام فوبیا پالیسی کے طور پر ’’ ایک شروعات ‘‘ہے۔
آسڑیا نے سات مساجد کو بند کرنے اور درجنوں اماموں کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا جس کو سیاسی قائدین نے ’’ سیاسی اسلام ‘‘ کے نام پر کاروائی قرادیا ہے۔
دائیں بازو نظریات کے حامل اور قدامت پسندوں پر مشتمل ملک کی اتحادی حکومت کا کہنا ہے کہ شدت پسند اسلام او رمذہبی گروپس کو فراہم کی جانے والی فنڈنگ کے خلاف ’’ یہ شروعاتی ‘‘ اقدام ہے۔ چانسلر سبستین کرز نے کہاکہ انتظامیہ اس کو بند کرے گا جو ’’سخت ترکی کی قوم پرست مسجد ہے ‘‘ اور ویانہ میں عرب مذہبی کمیونٹی کو بھی برخواست کرے گا۔
انہو ں نے کہاکہ ’’ ہمارے ملک میں سیاسی اسلام کا متوازی معاشرے او رشدت پسندی کے رحجانات کی کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ مخالف ایمگریشن فرینڈم پارٹی کے ساتھ پیپلز پارٹی نے اسی سال ملک میں حکومت تشکیل دی ہے۔
مذکورہ اقدامات آسڑیا میں اندر ’’ اسلام پر قانون‘‘۔جو مذہبی گروپس کو بیرونی ممالک سے ملنے والی امداد کو روکنے کے لئے2015میں قانون بنایاگیاتھا۔
اپریل کے مہینے میں یہ اقدام اسوقت شروع ہوا جب پہلی جنگ عظیم گولی پولی کی ویانا مسجد سے منسلک کر کے بچوں کی فوجی لباس میں ایک فوٹو منظر عام پر ائی ہے۔
1/Austria’s decision to close seven mosques and expel imams is a reflection of the Islamophobic, racist and discriminatory wave in this country. It is an attempt to target Muslim communities for the sake of scoring cheap political points.
— Ibrahim Kalin (@ikalin1) June 8, 2018
آسڑیا میں نوملین کی آباد ہے اور 600,000ہی سخت مسلم کمیونٹی رہتی ہے جس میں زیادہ تر یا تو ترکی میں پیدا ہوئی ہیں یہ ترکی نسل کے ہیں۔
ترکی صدر رجیب طیب اردغان کے ترجمان ابراہیم کالین نے اس اقدام کو ’’ اسلام فوبیواور آسٹریا میں نسل پرستی اور امتیازنظریہ‘‘ پر مشتمل فیصلہ قراردیا ہے۔انہوں نے اس پر ٹوئٹ بھی کیا۔
چالیس اماموں کے ویزوں کا آسٹریا انتظامیہ جائزہ لے گا جو ترکی اسلامی یونین فار کلچر اینڈ سوشیل کواپریشن آسڑیا( اے ٹی ائی بی) کے ملازم ہیں‘ یہ وہ گروپ ہے جو ترکی حکومت کے قریبی مانا جاتا ہے