نئی دہلی۔ آسام میں خواتین کی ہندوستانی شہریت کے لئے تحفظ فراہم کرنے والے گاؤں پنچایت کے ’ پنچایت سرٹیفکیٹ‘ سے متعلق معاملہ میں سپریم کورٹ میں جاری بحث آج مکمل ہوجانے کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس تعلق سے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیاہے جبکہ دوسری جانب ’ اصل مقیم شہری‘ فارمولہ کے تحت کچھ خواتین کو رعایت دئے جانے کے خلاف رٹ پٹیشن پر حکومت ہند سے29نومبر تک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
ا س معاملہ میںآئندہ سماعت29-30نومبر کو ہوگی ۔ درایں اثناء حکومت ہند نے نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنس ( این آرسی) کاکام مکمل کرنے کی آخری تاریخ 31ڈسمبر2017سے بڑھاکر 31جولائی 2018کرنے کا مطالبہ کیاہے ۔
جمعتہ علامہ ہند کی جانب سے سینئر وکیل سلمان خورشید ‘ سنجے ہیگڑے وویک کمار تنخواہ دار اور افضل ایوبی وغیر شامل تھے۔جسٹس رنجن گوئی او رجسٹس روہنٹن ناریمن کی بنچ میںآک گاؤ ں پنچایت کے سکریٹری کے ذریعہ جاری کئے جانے والے پنچایت سرٹیفکیٹ کے معاملے پر فریقین میں بحث ہوئی واضے ہوکہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایک معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پنچاب سرٹیفکیٹ کو خواتین کے لئے شہریت کا ثبوت ماننے سے انکار کردیا ۔
اس کی وجہہ سے تقریباً48لاکھ خواتین کی ہندوستانی شہریت پر ہی خطرے کے بادل منڈلانے لگے اور ان کے گھر سے بے گھر ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔جس کے بعد جمعیتہ علماء ہندو آسام کی تنظیم آمسو ‘ سوشیل جسٹس فورم اور صوفیہ بگیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیاگیا ہے جس پر جاری بحث کا آج خاتمہ ہوا۔ عدالت نے اس تعلق سے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
آج بحث کے دوران عدالت کارویہ آسام حکومت کے تئیں سخت رہا۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے سخت سوال کئے۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ پنچایت سرٹیفکیٹ کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ اس کا قانونی پہلو پہلے سے واضح ہے۔ عدالت نے کہاکہ جس فیصلے سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہورہے ہیں یا ہونے والے ہوں‘ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے متاثرین کی بات سننی چاہئے تھی۔
ان ہی 48لاکھ خواتین سے جڑے ایک اور معاملے’’ اصل مقیم شہری‘‘ فارمولہ کے تحت تقریبا26لاکھ خواتین کو رعایت دئے جانے کے معاملے میں بھی حکومت کے خلاف دائیر پٹیشن پر سپریم کورٹ نے آج حکومت ہند کو نوٹس جاری کرکے 29نومبر تک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
اس معاملہ کی اگلی سماعت اب 29نومبر کو ہوگی۔ اس معاملے میں جمعتہ علماء ہند او رآمسو کا ایک ہی موقف ہے ان رہنما اصول او رقواعد کی وضاحت کی جائے جن کی بنیاد پر کچھ خاص‘ خواتین کی رعایت دی جارہی ہے۔