ظلم و جبر، حق تلفی اور ناانصافی پر مسلم لڑکی کی جدوجہد کامیاب

اترپردیش کے متوسط طبقہ کی اسکول ٹیچر آئی اے ایس بن گئی، عزم مصمم و بلند حوصلے دیگر کیلئے قابل تقلید

محمد علیم الدین
حیدرآباد 8 جولائی ۔ سسٹم سے باز ہوکر سسٹم کے خلاف ہونے والوں کے بہت سارے واقعات پائے جاتے ہیں۔ کہیں کوئی سسٹم سے بُرائی کے خاتمہ کے لئے ہتھیار اُٹھا لیتا ہے تو کوئی اپنے آپ ہی کو مٹادیتا ہے۔ لیکن سیرت فاطمہ نے وہ کارنامہ انجام دیا جس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ ہتھیار اور ہلاکت کی فلاسفی کو بدلتے ہوئے یہ مسلم لڑکی سسٹم کا ایک آلہ بن گئی۔ ناانصافی، حق تلفی، تنگ نظری، ظلم و زیادتی کا شکار عوام کے لئے ایک بے مثال پیغام دیتے ہوئے سسٹم میں شامل ہوگئی۔ پرائمری اسکول ٹیچر سیرت فاطمہ اب آئی اے ایس عہدیدار بن گئیں۔ ریاست اترپردیش کے الہ آباد سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازم عبدالغنی کی لڑکی ملک کی نوجوان نسل کے لئے زبردست پیغام دیتے ہوئے مثال قائم کی ہے۔ سیرت فاطمہ کے آئی اے ایس بننے پر سوشل میڈیا پر ایک پیغام وائرل ہوگیا ہے کہ لڑکی نے ظلم و جبر زیادتی اور ناانصافی کو دیکھتے ہوئے ارادہ کیا اور آئی اے ایس بنی۔ تنگ نظری اور جانبدار میڈیا سے دور اس خبر کی حقیقت جاننے کے لئے میڈیا نے اسے منظر عام پر لایا اور ’’وائرل سچ‘‘ کے نام پر جانچ کرتے ہوئے خبر سچی ہونے کا اقرار کرلیا۔ اس مسلم لڑکی کے حوصلے کو آج پورا ملک سلام کرتا ہے۔ کل تک معمولی اسکول ٹیچر سے ملاقات کرنے میں پس و پیش کا شکار عوام کو آج اس نے اپنی تعریف کرنے پر مجبور کردیا۔ سیرت فاطمہ کے آئی اے ایس بننے میں ان کے والد کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ بچوں کی حوصلہ افزائی بالخصوص لڑکیوں کی صحیح رہنمائی اور ان کی ہمت افزائی کس انداز میں کرنا چاہئے اور کس انداز سے انہیں سربلند کرنا چاہئے، عبدالغنی نے سماج کو بتادیا۔ اعلیٰ عہدیداروں کی ڈانٹ ڈپٹ، تنگ نظری کا شکار عبدالغنی جب بھی آفس میں کچھ ہوتا تو کم عمر اعلیٰ عہدیداروں کو دیکھتے ہوئے یہ سوچا کرتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کو آخر ایسا کیوں نہیں بناسکتے۔ اس سوچ نے ان کی 4 سالہ لڑکی سیرت فاطمہ کی جانب متوجہ کیا۔ لڑکی کی بہترین تربیت، اچھی تعلیم اور ذہن سازی، حوصلہ افزائی نے باپ اور بیٹی کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ آج باپ اور بیٹی دونوں ہی مسرت سے سرشار ہیں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکر گزاری کررہے ہیں۔ سیرت نے بتایا کہ اس نے نویں جماعت ہی سے اپنا نشانہ مقرر کرلیا تھا اور گریجویشن کے بعد وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ ایک پرائمری اسکول میں بحیثیت ٹیچر خدمات انجام دیتے ہوئے اس مسلم لڑکی نے یو پی ایس سی کی تیاری کی اور کارنامہ انجام دے دیا۔ سیرت فاطمہ کے مطابق پہاڑ توڑ کر جب راستہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر یو پی ایس سی میں کامیابی کیوں نہیں مل سکتی۔ لڑکی ایک اوسط درجہ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ حوصلے و عزم کے سامنے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آج اپنی نااہلی اور عدم دلچسپی کی بنیاد پر پیسہ، ذات اور نسل کو بہانہ بناکر مسلم نوجوان مسابقتی دوڑ سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں۔ سچی محنت و لگن جستجو و حوصلہ ہو تو کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا جس کو سیرت فاطمہ نے ثابت کردیا۔ اس لڑکی کے اس عزم و حوصلہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر کوئی سسٹم کی بُرائی سے بیزار ہے اور تنگ نظری کا شکار ہے تو سسٹم کو بدلنے کی احمقانہ سوچ کو بدلتے ہوئے سسٹم کا ایک حصہ بن سکتا ہے جس سے بہت کچھ تبدیلیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ یقینا ایک فرد سے کچھ نہیں ہوتا لیکن فرد کی شخصیت بہت کچھ اثرانداز ثابت ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹریفک قوانین کا پاس و لحاظ رکھنے والے ایماندار اکثر سگنل پر جمع ہوجائیں تو بڑی سے بڑی گاڑی کو بھی رُکنا پڑتا ہے۔ مسلم سماج کو چاہئے کہ وہ اپنے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کی سمت اور نشانہ مقرر کریں۔