سربراہان مملکت کے فرائض

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

قرآن پاک جو ہدایت کا منبع نجات و کامرانی کا سرچشمہ ہے۔ احادیث مبارکہ جو کتاب ہدایت کی تشریحات و توضیحات ہیں وہ راست طور پر اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ رعایہ کا ایک حاکم اور امیر ہو، امیر و حاکم کا انتخاب انسانی سماج و معاشرہ کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر ایک کامیاب معاشرہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، نظام امارت کے بغیر وجود میں آنے والا یا چلنے والا معاشرہ کوئی صحراء یا جنگل تو ہوسکتا ہے انسانوں کا سماج و معاشرہ نہیں۔

اس خصوص میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ امیر کہتے کسے ہیں اس کی ذمہ داریاں اور فرائض آخر ہوتے کیا ہیں، امارت کا مطلب کیا ہے۔ امیر کہتے ہیں سردار اور حکمران کو اور امارت سرداری اور حکمرانی کو امیر و حاکم دراصل مملکت کا سربراہ ہوتا ہے۔ موجودہ احوال کے تناظر میں جہاں اسلامی حکومت ہو خواہ جمہوری ہو کہ بادشاہی اسلام کے بنیادی قوانین کی حفاظت اور دستوری و اساسی بنیادوں پر اسلامی احکام و قوانین کی نمائندگی اور اس کی محافظت حکومت کے کار پردازوں اور رعایہ کا اس پر عمل، حکومت و سلطنت کا عمدہ نظم و انتظام، مملکت میں امن و آمان کا قیام، عدل و انصاف کا استحکام معاشرہ میں معروف کا چلن، فواحش و منکرات سے معاشرہ کی تطھیر۔

رعایہ میں غیر مسلم باشندے ہوں تو دستور و قانون کے مطابق ان کااور ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ ، ان کودئے گئے دستوری حقوق کے مطابق ان کا اکرام و احترام ان کی پوری برادری کے جان و مال، عزت و آبرو کے حفاظت کی کامل ضمانت اور ان کے ساتھ بھی بلا تفریق عدل و انصاف وغیرہ جیسے اہم اور بنیادی امور کی سختی سے نگرانی اور ان پر عمل درآمد اسلامی مملکت کے سربراہ و امیر کا فریضہ، منصبی ہے۔

غیر اسلامی ملک ہو جیسے آج کل سیکولر اور جمہوری طرز کا نظام دنیا کے بعض ملکوں میں قائم ہے۔ یہ نظام چونکہ کسی ایک مذہب یا فکر و تہذیب کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ کئی مذاہب کے ماننے والے اور مختلف کلچر و تہذیب کے نمائندہ افراد کی نمائندگی کرنے والا سارے مذاہب اور اس کے ماننے والوں کے متفقہ و مساویانہ حقوق کی رعایت کے ساتھ چلنے والا نظام ہوتا ہے۔

بلا لحاظ مذہب و ملت و بلا لحاظ فکر و تہذیب سارے باشندگان وطن مل کر اپنے نمائندہ منتخب کر کے ایوان حکومت میں بھیجتے ہیں۔ اکثریت کی بنیاد پر ایک جماعت حکومت کی تشکیل کر سکتی ہے دستوری اعتبار سے اکثریت حاصل ہو تو کسی اور جماعت کی تائید سے یا پھر بعض دفعہ حسب ضرورت کئی ایک جماعتوں کی تائید سے حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اس طرح کے جمہوری نظام کے سارے سربراہان صدر و نائب صدر، وزیراعظم گورنرس و دیگر متفرق قلمدانوں کے وزراء و اہم ذمہ داران و نگران سب کے سب حکومت کے نظم و انتظام میں درجہ بدرجہ اپنی ایک منفردشناخت رکھتے ہیں، ہر ایک اپنے منصب و عہدہ کے مطابق آئین حکومت کی پاسداری کا ذمہ دار ہوتا ہے اس حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک کے دستور و قانون کی سختی سے حفاظت کرے،

تمام طبقات کو دستور و قانون میں دئے گئے مراعات و تحفظات پر عمل کو یقینی بنائے، بھید بھائو یا تعصب و عداوت کو عدل و انصاف کے قیام میں حائل نہ ہونے دے۔امن و آمان کی برقراری حکومت کی اولین ترجیح ہو۔بڑی سے بڑی قیمت ادا کر کے امن و آمان کے قیام سے ملک کے باسیوں کیلئے سکون و اطمینان کا ماحول فراہم کرے، بگاڑو فساد، نفرت و عداوت، تعصب و دشمنی، لوٹ کھسوٹ، چوربازاری، غنڈہ گردی، تشدد و انتہاپسندی، ظلم وجور، قتل و غارت گری وغیرہ جیسے گھنائونے جرائم کو کسی قیمت پنپنے کا موقع نہ دے، ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی رعایہ کی حفاظت اور ان کی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ جیسے اہم اہداف کو کھلے دل و کھلے ذہن کے ساتھ عمدہ انداز میں روبہ عمل لانے کی ایسی منصوبہ بند و کامیاب کوشش کہ رعایہ کا کوئی فرد ان بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رہنے پائے۔

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تین طرح کے ادوار حکومت کار پرداز رہے ہیں ایک خلافت، دوسرے ملوکیت، تیسرے جمہوریت،اسلام نے نظام خلافت کی بنیاد ڈالی جو دراصل جمہوری نظام ہی ہے ،موجودہ جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام سارے عوام مل کر بناتے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایک شورائی نظام ہوتا ہے جس کو عوام کے چنندہ ومنتخب زعماء ملت واصحاب علم ودانش ،دین ودیانت ،تقویٰ وصلاحیت کی بنیاد پر کسی کو حاکم منتخب کرتے ہیں ۔خلافت راشدہ کا زرین دور اس کی ایک عظیم مثال ہے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے خلافت راشدہ کو نشان راہ بناکر بے مثال حکومت کی ہے ،اپنے طرز حکومت سے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک روشن شاہراہ بنائی ہے ۔اس راہ پر چل کر حکومت کی جائے تو صحیح معنی میں حکمرانی کا حق ادا ہوسکتاہے ۔ایمان کی شرط کے ساتھ ایسے حکمرانوں کو دونوں جہاں کی کامیابی نصیب ہوسکتی ہے ۔