خلاف شرع اعمال کو باطنی رموز سے تعبیر کرنا

سوال : ایک شخص جو کہ زندگی تمام شراب خوری، گالی گلوج و بد کلامی میں رہا اور بے نمازی تھا اور کچھ باتوں کو رموز و اسرار کی طرف منسوب کرتا تھا اس کی وفات کے بعد مزار بناکر عرس شریف منایا جاتا ہے اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے۔ مریدین جو بے نمازی اور غیر شرعی اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں، نصیحت کی جائے ؟
محمد نعیم اللہ ، پرانا پل
جواب : شریعت مطھرہ کے احکام کی پابندی عبادات و فرائض کا اہتمام ہر ایک مسلمان پر شرعاً لازم ہے، اس کے احکام کی بجا آوری کم از کم اس استحضار کے ساتھ کہ ’’ اللہ سبحانہ ہمیں دیکھ رہا ہے‘’ احسان کہلاتی ہے… و ماالاحسان یا رسول اللہ ’’ ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراۃ فانہ یراک‘‘ (الحدیث) مذکورہ در سوال اصحاب کے کلام سے احکام شرع نماز وغیرہ سے تساہل ظاہر ہورہا ہے اس لئے ان کو توبہ کرنا اور احکام شرع کی پابندی کرنا چاہئے ۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کا ارشاد مبارک سامنے رہنا چاہئے۔ فرماتے ہیں من تفقہ بغیر تصوف فتفسق و من تصوف بغیر تفقہ فتز ندق و من جمع بینھما فتحقق ( ترجمہ مرج البحرین ص : 52 مصنفہ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ) یعنی جو شخص فقیہ ہوا صوفی نہ ہوا وہ فرمان سے باہر چلا گیا(فاسق ہوگیا) اور جو صوفی ہوا اور فقیہ نہ ہوا تو وہ ضرور دین حق سے پھرگیا اور جس نے ان دونوں کو جمع کیا وہ حق کو پالیا۔ صالحین امت کے یوم وصال کو عرس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عرفاً ان کے ذکر و فاتحہ کو عرس کہا جاتا ہے ۔مذکورہ در سوال فرد اگر حقیقت میں ویسا ہی تھا جیسا کہ سوال میں ذکر ہے تو ایسے فاسق و فاجر فرد کے انتقال کے دن اجتماع کر کے اس کو عرس کہنے سے عوام الناس میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اس لئے بے نہایت غیر مناسب ہے۔ البتہ عرس کا نام دئیے بغیر ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی ، اطعام طعام وغیرہ کا اہتمام ہو تو شرعاً منع نہیں۔
غیر شرعی اعمال کا ارتکاب کرنا اور اس کو باطنی اسرار و رموز سے تعبیر کرنا شیطانی وسوسے ہیں۔ ان کو اپنی اصلاح کرنا لازم ہے۔

ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعتیں
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد دو منزلہ ہے ، گزشتہ چند سال سے مسجد کے زیریں ہال میں سوا پارہ اور دوسری منزل پر تین پارے کا اہتمام ہوتا ہے۔ بعض حضرات کو اس میں اعتراض ہے۔ لہذا ہر دو منزل میں علحدہ امام کی اقتداء میں بیک وقت نماز تراویح کی دو جماعتیں قائم کی جائیں تو کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب : کئی منزلہ مسجد میں امام چاہے کسی منزل میں ہو بشرطیکہ اس کے ساتھ مقتدی ہوں، تمام منازل میں اس کی اقتداء درست ہے ۔ اس لئے مسجد کے تمام منازل حکماً ایک ہی مسجد ہے ۔ جیسا کہ فتاوی تاتار خانیہ جلد اول ص : 568 میں ہے ۔ اذا کان الامام علی الدکان والقوم علی الارض اوکان الامام علی الارض و القوم علی الدکان … اما اذا کان بعض القوم مع الامام فلا باس بہ ۔ تراویح سنت موکدہ ہے۔ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کرنا مشروع ہے ۔ ایک ہی مسجد میں خواہ الگ الگ منازل ہی کیوں نہ ہو، بیک وقت متفرق ائمہ کی اقتداء میں جماعت تراویح کا قیام غیر مشروع ہے۔ حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف ائمہ کی اقتداء میں نماز تراویح کی ادائیگی کو دیکھا تو آپ نے سب کو ایک ہی امام حضرت ابی بن کعبؓ کی امامت میں جمع فرماکر ایک ہی جماعت کی بنیاد قائم فرمائی جس پر تمام صحابہ کا اجماع ہے ۔ جیسا کہ مؤطا امام ص : 139 میں ہے ۔ عن عبدالرحمن عبدالقاری انہ خرج مع عمر بن خطاب لیلۃ فے رمضان فاذا الناس او زاع متفرقون یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر ۔ واللہ لانی لاظننی لو جمعت ھؤلاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم جمعہم علی ابی بن کعبؓ قال ثم خرجت معہ لیلۃ اخری والناس یصلون بصلاۃ قارئہم فقال نعمت البدعۃ ھذہ۔

مضبوط مسجد کو شہید کرنا
سوال : ہمارے وطن میں مسلمانوں کے 15 مکانات ہیں اور دور نظامی کی ایک جامع مسجد بھی ہے۔ اس مسجد کو ایک صاحب شہید کر کے اسی مقام پر نئی مسجد کو تعمیر کروانا چاہتے ہیں تو مسجد کا انتظامیہ ، مصلیان اور مقامی افراد بھی سخت ناراض ہیں اور تعمیری تجربہ رکھنے والوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس مسجد کو نہ ڈھایا جائے۔ ایسی صورت حال میں مسجد تعمیر کروانے والے صاحب کا اقدام کیا ہونا چاہئے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ؟ نئی تعمیر ہو تو بانی کون کہلائے گا، تعمیر نہ کی جائے تو ایصال ثواب کی کیا شکل ہوگی؟
محمد مجیب پربھنی
جواب : بشرطِ صحت سوال صورت مسئول عنہا میں آصفجاہی دور کی جامع مسجد مضبوط ہے اور مصلیوں کی تعداد کے لحاظ سے تنگ نہیں ہورہی ہے تو بلا ضرورت مسجد کا توڑنا درست نہیں۔ نیز بوقت ضرورت شہید کر کے تعمیر کی ضرورت ہو تو بھی اس کا بانی سابقہ شخص ہی رہے گا۔
اگر کوئی صاحب ثروت ایصالِ ثواب کی خاطر مسجد کے معاملہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ ضروریات مسجد کیلئے کوئی جائیداد وقف کر کے اس کی آمدنی کو مسجد کے لئے وقف کردیں اور اس میں صراحت کریں کہ آئندہ ضرورت پڑے تو اس کی آمدنی سے مسجد کی تعمیر جدید ہوسکتی ہے۔

امام کے پیچھے مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا
سوال : شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کامپلکس خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے طبع کی گئی قرآن شریف میں لکھا گیا ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ سورہ الحمد شریف ہر رکعت میں پڑھیں اورضم سورہ نہ پڑھیں۔ منفرد ہو یا امام یا امام کے پیچھے مقتدی سری نماز ہو یا جہری فرض نماز یا نفل یہ تو ٹھیک ہے لیکن باجماعت نماز میں بھی مقتدی امام کے پیچھے کھڑے ہوکر آہستہ سے الحمد شریف پڑھ کر خاموش ہوجائے، امام وہیں سورہ ختم کرنے کے بعد رکوع میں جائے۔ قرآن و حدیث کی رو سے یہ عمل صحیح ہے یا غلط خلاصہ فرمائیں تو عین نوازش ہوگی اور نماز کے صحیح ادا کرنے کی توفیق ہوگی۔
نام ندارد
جواب : مذکورہ السؤل ترجمہ و تفسیر غیر حنفی مسلک کے عالم کی ہے اور احناف کے نزدیک بفحوائے ارشاد الہی : واذا قریٔ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا (اور جب قرآن مجید کی تلاوت کی جا ئے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو) امام قرآن مجید کی تلاوت کرے تو مقتدی کو خاموش رہنا اور غور سے سننے کا حکم ہے۔ البتہ دیگر ائمہ کے نزدیک امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے۔ ہر ایک کے دلائل کتب حدیث و فقہ میں بالتفصیل موجود ہیں۔

تراویح میں تجوید کی رعایت کے بغیر
قرآن پڑھنا
سوال : اللہ رب العزت سے قوی امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے ۔ اللہ آپ کو صحتمند اور خوش و خرم رکھے۔ آمین۔ اب جبکہ رمضان المبارک بہت قریب ہے ، حفاظ کا تقرر ہورہا ہے، مساجد میں رمضان کی تیاریاں زور و شور سے ہے۔ مندرجہ ذیل میں تراویح میں قرآن تلاوت کے بارے میں چند باتیں مفتیان کرام سے وضاحت کرنی تھیں۔ برائے مہربانی آپ اپنے رسوخ سے ان باتوں کی وضاحت حاصل کر کے عوام الناس اور اپنے اخبار کے قاریوں کو مطلع فرمائیں۔ جزاء کم اللہ خیر۔
سارے ہندوستان میں تراویح میں مروجہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے جس میں دو تا دس پارے تراویح میں سنائے جاتے ہیں۔ دو پارے پڑھانے والی مسجد میں ہی قرآن سمجھ میں نہیں آتا ہو تو پھر 3 تا 10 پاروں کے سمجھنے کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ اس طرح مساجد میں قرآن پڑھنے کا گویا مقابلہ ہوتا ہے اور جس تیزی سے قرآن پڑھ کر اللہ رب العزت کی نافرمانی کی جاتی ہے ۔کاش علماء کرام کو اللہ کے حکم رتل القران ترتیلا کے حوالے سے مساجد کے انتظامیہ کو انتباہ دیا جاتا تو تمام مومنین کو اس گناہ سے بچایا جاسکتا ہے ۔ یا پھر اس طرح قرآن کا تراویح میں پڑھنا جائز ہے ؟ صحیح حدیث کے حوالہ سے ممکنہ عجلت میڈیا کے ذریعہ سے مطلع فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے رتل القرآن ترتیلا کا حکم دیا ہے نہ کہ رتل القران ترتیلا الا فی التراویح ؟ اب علماء کرام کا فرض عین ہے کہ وہ ثانیہ مرزا کے لباس پر فتوے جاری کرنے کے بجائے پہلے اس بات پر فتویٰ جاری کریں کہ قرآن ترتیل سے پڑھیں چاہے وہ قرآن کی انفرادی تلاوت ہو یا تراویح میں تلاوت ہو۔
مرزا عارف بیگ، جہاں نما
جواب : ایک اہم بات کی طرف سائل نے توجہ مبذول کروائی ہے ۔ اور وہ تراویح میں تلاوت قرآن کا مسئلہ ہے ۔ کثرت سے تلاوت قرآن محمود و مقصود ہے لیکن اس کے حدود و آداب کے ساتھ۔ اگر قرآن تراویح میں تین پارے یا دس پارے یا اس سے زائد پڑھے جائیں اور امام اس قدر تیزی سے پڑھے کہ سامعین کو اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے اور خود امام صاحب تجوید کی مراعات نہ رکھ سکیں تو ایسی صورت میں امام صاحب کا قرآن پڑھنا درست نہیں بلکہ حدیث شریف: بعض قاری قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کی وعید سے وہ بچ نہیں سکیں گے۔ اس لئے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کے لئے پڑھیں اور تراویح میں ہو یا انفرادی طور پر کثیر تلاوت محمود و پسندیدہ ہے۔ بشرطیکہ اس میں مخارج و ادائی کا مکمل پاس و لحاظ ہو اور عموماً کثیر تلاوت میں تجوید کی کامل مراعات مفقود ہوتی ہے۔

زکوٰۃ کے معنی
سوال : زکوۃ کے معنی و مراد کیا ہیں ، یہ کب فرض ہوئی ، کیا سابقہ امتوں میں بھی اس کی فرضیت تھی ؟
ذکیہ سلطانہ، مراد نگر
جوا ب : زکوۃ : مادہ زک و ، زکا، یزکو ، زکاء ، وزکا ، بمعنی بڑھنا ، پھلنا ، پھولنا ، زکوۃ کے اصل معنی نمو (بڑھنے اور افزونی) کے ہیں۔ علاوہ ازیں لغت میں زکوۃ کے معنی طہارت اور برکات بھی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد شرائط مخصوصہ کے ساتھ کسی مستحق آدمی کوا پنے مال کے ایک معین حصے کا مالک بنادینا ہے ۔ تملیک مال مخصوص لمستحقہ بشرائط مخصو صۃ (الجزیری) ، الراغب کے الفاظ میں وہ حصہ جو مال سے حق الہی کے طور پر (لازماً) نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے۔ زکوۃارکان خمسہ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ اسے زکوۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے ۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کسی نہ کسی صورت میں سابقہ امتوں میں بھی رائج تھی ۔ بائیبل میںبھی اس کا ذکر آتا ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عام صدقات (انفاق) کے معنوں میں ابتداء اسلام ہی سے مروج ہوگیا تھا ، لیکن اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا ۔ بہرحال 8 ہجری میں زکوۃ کی فرضیت کی تصریح مل جاتی ہے ۔ محرم 9 ھ میں زکوٰۃ کے تمام قوانین و احکام مکمل ہوکر نافذ ہوگئے تھے۔ زکوٰۃ کے احکام تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہیں، لیکن ان کتب سماوی میں مدت کی تعیین میں قطعیت نہ تھی ۔ اسلام نے اس سلسلہ میں مدت کا تعیین کیا اور ایک سال کی مدت مقرر ہوئی۔