اقوام متحدہ’اپنے ہی کارکنوں کی جانب سے کئے جانے والے جنسی استحصال کی روک تھام میں ناکام‘۔ پندرہ سال میں17ہزارشکایتیں

پچھلے پندرہ سالوں میں اقوام متحدہ کے فوجی اور شہری کارکنوں کے خلاف 17ہزار الزام عائد کئے گئے مگر صرف53یونیفارم زیب تن کئے امن قائم کرنے والے کارکن اور ایک شہری کو جنسی جرائم کی وجہہ سے قید کی سزاء سنائی گئی ہے۔
ڈاکیومنٹری میں اس بات کا دعوی کیاگیا ہے کہ جاریہ سال میں جنسی استحصال او ربدسلوکی کے تازہ واقعات میں اقوام متحدہ اپنے ’پیس میکر‘ملوث ہیں۔پچھلے پندرہ سالوں میں اقوام متحدہ کے فوجی اور شہری کارکنوں کے خلاف 17ہزار الزام عائد کئے گئے مگر صرف53یونیفارم زیب تن کئے امن قائم کرنے والے کارکن اور ایک شہری کو جنسی جرائم کی وجہہ سے قید کی سزاء سنائی گئی ہے۔

او رچینل 4ڈاکیومنٹری میں اس بات کادعوی کیاگیا ہے کہ اس جنسی استحصال او ربدسلوکی کے تازہ 32الزمات لگے ہیں۔ ٹونی بنبور جس نے 2016میں اقوام متحدہ میں بیس سال کاوقت گذارنے کے بعد استعفیٰ دیا ہے تنظیم کی رنگی برنگی تصوئیر پیش کی ہے

۔انہوں نے کہاکہ ’’ یہاں پرسچائی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے امن مشن کے دوران عصمت ریزی کرنے والے کسی کو بھی مجرمانہ جوابدہی کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے‘ حالانکہ اس ضمن میں بہت سارے لوگوں نے مضبوطی سے کوشش کی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا

۔ نظام میں بہت ساری خامیوں ہیں‘‘۔ مرکزی افریقہ جمہوریہ کے ایک متاثرڈانیال ڈاکیومنٹری میں بتایا کہ فرانس کے پیس میکر نے انہیں سڑک پر اتاردیاتھا۔ انہو ں نے مجھے پکڑا اور گھر کے اندر لے گئے‘ اندر لے جانے کے بعد میرے کپڑے اتاردئے اور میرا جنسی استحصال کیااور پھر مجھے باہر دھکیل کر جانے کے لئے کہا‘

اس کے گھر والو ں نے کہاکہ انہیںیواین عہدیداروں سے شکایت کرنے کا طریقہ کار معلوم نہیں تھا اس لئے عصمت ریزی کا یہ واقعہ تحریر میں نہیں آیا۔

ایک اورمتاثر جس پر حملے کے وقت اس کی عمر گیارہ سال کی تھی مانڈا نے کہاکہ اس کو مارکٹ سے گیہوں لانے کے لئے جاتے وقت راستے میں ’’ پوری شدت کے ساتھ پکڑا ‘‘۔ اس نے کہاکہ ’مجھے پتہ نہیں انہوں نے میری منتخب کیوں کیاتھا۔

میرے جنسی استحصال کرنے کے بعد انہوں نے مجھے پیسے دئے اور اس واقعہ کے متعلق کسی کو بتانے سے منع کیا۔میں پھر واقعہ کے دوسرے مہینے میں حاملہ ہوگئی‘۔

یواین کمانڈر برائے مرکزی افریقہ جمہوریہ لفٹنٹ جنرل بالا کیٹی نے اس بات کو قبول کیاکہ’ ہم اچھے لوگ بہت ہی اچھے لوگ ہیں ‘ ہمیں خراب اور بہت ہی خراب لوگ ملے ہیں‘۔

سال2004میں جمہوری کانگو میں اقوام متحدہ کے لئے کام کرنے کے دوران بیس سے پچیس تارکین وطن کے ساتھ جنسی تعلقات کو قبول کرنے والی ڈی بارگوڈ کو دو کے ساتھ عصمت ریزی کے جرم میں سزا سنائی گئی۔

بارگوڈ جن کی جس ویلاریا کی چودہ سال کی عمر میں عصمت ریزی نے اس نے کہاکہ پہلی مرتبہ اس نے دو ڈالر دئے دوسری مرتبہ پانچ اور تیسری مرتبہ پندرہ ڈالر دئے تھے۔

اس نے کہاکہ’ میں اسو قت بہت کم عمر تھی ‘اور مجھے خراب لگ رہا تھا کیونکہ وہ میرے باپ کی عمر کا تھا ۔

میرا دل افسوس کررہا تھا۔ اس شخص نے میری زندگی برباد کردی۔ایک او رلڑکی موریسٹی جس کی عمر 17سال کی تھی جس وقت موریشائی پیس میکرس نے اس کو نشہ کرانے کے بعد اجتماعی عصمت ریزی کی تھی۔

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے چیانل 4کو بتایا کہ ’جنسی ہراسانی کے لئے کام کرنے کوکبھی بھی برداشت نہیں کیاجائے گااور بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی‘۔