نقی تنویر

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
تیس سال پہلے میں اورنقی ؔ تنویر چادر گھاٹ پُل سے قریب موسیٰ ندی کے کنارے ایک ریستوراں میں بیٹھا کرتے تھے اور تین دن پہلے میںاور نقیؔ تنویر ویسٹ منسٹر سے قریب دریائے ٹیمز کے کنارے ایک جہازی ریستوراں میں بیٹھے لندن کی جگمگاتی روشنیوں سے پَرے کچھ دیکھنے کچھ سمجھنے کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان تیس برسوں میں ویسٹ منسٹر کے پُل کے نیچے دریائے ٹیمز میں نہ جانے کتنا پانی بہہ گیا۔ انگریزی محاورے سے کچھ زیادہ ہی بہہ گیا ہوگا۔ اور اِدھر موسیٰ ندی چونکہ انگریزی نہیں جانتی اس لیے بہتی کم ہے اور بہنے کی اداکاری زیادہ کرتی ہے۔ چادرگھاٹ کے پُل کے نیچے موسیٰ ندی نہ جانے کب سے رُکی کھڑی ہے۔ شاذؔ نے کہا ہے:
ٹھہرا ہوا دریا ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
میں نے اس ٹھہرے ہوئے دریا کی سطح پر یادوں کی کنکری پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’یار نقی! کتنی عجیب بات ہے۔ تیس برس پہلے جب ہم چادر گھاٹ پُل کے اُس ریستوارں میں بیٹھا کرتے تھے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ہم ہزاروں میل دور دریائے ٹیمز کے کنارے اپنی پیٹھوں پر تیس برس کے بیتے ہوئے وقت کی گٹھری لادے آن بیٹھیں گے تاکہ تم اپنے وقت کا حساب بتاؤ اور میں اپنے وقت کا حساب بتاؤں اور پھر ہم دونوں مل کر دنیا کو بتائیں:
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں

اس شام نقیؔ خاموش سا رہا کیونکہ یہ اُس کی پرانی عادت ہے۔ میں اسے پچھلے تیس برسوں سے جانتا ہوں۔ وہ بھی موسیٰ ندی کی طرح ٹھہرا ہوا دریا ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ اس کی جھولی میں زندگی کے تجربات مجھ سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔
میں نے کہا۔ ’’ یار نقی! دیکھو تو ویسٹ منسٹر کے اس پُل سے پرے لندن کس طرح جگمگارہا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے تیس برس پہلے کی موسیٰ ندی اپنے حافظہ میں ٹیمز سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے۔ حیدرآباد لندن سے بڑا شہر دکھائی دیتا ہے ۔اُس کی روشنیاں جن کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں تھا، لندن کی روشنیوں سے زیادہ روشن نظر آتی ہیں۔ حافظہ میں یہ گڑبڑ نہ جانے کس طرح ہورہی ہے۔ اصل میں نوجوانی چیز ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہم اپنی نوجوانی کے پھیلے ہوئے پاٹ کو موسیٰ ندی کے پاٹ سے جوڑ دیتے تھے۔ اپنے دلوں میں جھلمل جھلمل کرنے والی روشنیوں کو موسیٰ ندی کے کنارے پر سجادیتے تھے۔ روشنی ہمارے اندر تھی، شہر میں نہیں۔ وسعت شہر میں نہیں ہمارے وجود میں تھی۔‘‘ میری اس بات پر نقی پھر بھی خاموش رہا کیونکہ پچھلے بائیس برسوں میں اس نے ٹیمز کے ساتھ گزارا کرنے کی عادت ڈال لی ہے۔ وہ دو دریاؤں کے پیچ اب ایک خاموش جزیرہ بن گیا ہے۔معاف کیجئے میں خلاف توقع شاید کچھ سنجیدہ اور کچھ جذباتی ہوگیا ہوں جس کی شاید ضرورت نہیں تھی۔ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو۔
مجھے اس وقت ایک لطیفہ یاد آرہا ہے کہ ایک خاتون اپنے بچوں کو اپنے البم سے پرانی تصویریں دکھارہی تھیں۔ ایک مرحلہ پر انھوں نے ایک خوبرو اور وجیہہ و شکیل نوجوان کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ انھیں دیکھو یہ تمہارے ڈیڈی ہیں۔‘‘ اس پر سب سے چھوٹے بیٹے نے بڑے غور سے اُس تصویر کو دیکھا اور بولا۔ ’’ممی ! اگر یہ ہمارے ڈیڈی ہیں تو پھر وہ گنجا اور کھوسٹ شخص کون ہے جو ہر دم گھر میں کھانستا رہتا ہے اور جسے ہم لوگ ان دنوں ڈیڈی کہتے ہیں۔‘‘

تو صاحبو! آج میں اسی نقیؔ تنویر کا حال بیان کرنے چلاہوں جو آج سے تیس برس پہلے مجھے ملا تھا۔ دھان پان تو خیر وہ آج بھی ہے مگر اُن دنوں کچھ زیادہ ہی دھان پان تھا۔جون 1953 میں جب میں گلبرگہ سے انٹر میڈیٹ کا امتحان کامیاب کرکے عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد آیا تو چار دنوں میںہی نقیؔ سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھا اور ابتداء ہی سے حیدرآباد میں مقیم تھا۔ اُن دنوں جو طلباء اضلاع سے حیدرآباد آتے تھے ان کا سینئر طلبہ اکثر مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ابتدا میں نقیؔ مجھے بھی Rural Talent سمجھا کرتا تھا مگر بہت جلد ہم دونوں نے مِل کر دو چار ایسے Rural Talents کو تلاش کرلیا جن کے سہارے یونیورسٹی کے دن نہ جانے کس طرح بیت گئے۔ اُن دنوں عثمانیہ یونیورسٹی اُردو ماحول میں کمر کمر ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر دوسرا طالب علم شعر کہتا تھا اور چوتھا طالب علم افسانے لکھا کرتا تھا۔ اس اعتبار سے نقیؔ تنویر چوتھا طالب علم تھا یعنی افسانے لکھا کرتا تھا بلکہ اُن ہی دنوں عالمی امن کے موضوع پر اس کے ایک افسانے کو بین الاقوامی انعام بھی ملا تھا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ادبی محفلوں میں ہوٹنگ کے ذریعہ ادب سے اپنا رشتہ بنائے رکھا تھا۔ گلبرگہ کے زمانہ طالب علمی سے ہی میں آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا تھا جو بائیں بازو کے خیالات کے حامل طلباء کی انجمن تھی۔ نقیؔ سے ملا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف اس انجمن کی زُلف گرہ گیر کا اسیر ہے بلکہ بہت سی اُن طالبات کی زُلف ہائے گرہ گیر کا اسیر ہے جن کا میں بھی اپنے آپ کو اسیر سمجھتا تھا۔ بعد میں ’’ زُلفوں‘‘ کے معاملے میں ہم نے پُرامن بقائے باہم کا معاہدہ کرلیا تھا اور کبھی ہم دونوں کے درمیان اس معاملے میں تصادم کی نوبت نہیں آئی۔ آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں میں ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ نقیؔ یونین کے کاموں میں بہت سنجیدگی سے حصہ لیتا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے دفتر بھی اس کا آنا جانا بہت ہوتا تھا۔ ہڑتال ہو یا بھوک ہڑتال، مظاہرے ہوں یا مباحثے نقیؔ سب میں پیش پیش رہتا تھا۔ ہمارے ایک دوست تھے اسدؔ ، اب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری تھے۔ ہمیشہ پیلے رنگ بش شرٹ پہنا کرتے تھے۔ مرحوم کا سارا وقت نعرے لگانے میں گزرتا تھا۔ اُن کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ موصوف نیند میں بھی انقلابی نعرے لگاتے تھے۔ جس کسی کالج کے سامنے یہ پیلا بُش شرٹ نظر آتا تھا طلباء خود بخود کلاسوں سے غائب ہوجاتے تھے کہ ’’ چلو پیلا بُش شرٹ نظر آگیا ہے۔کالج کی چھٹی ۔‘‘ نقیؔ جتنا سنجیدہ نظر آتا تھا اندر سے اتنا ہی شریر اور چُلبلا تھا۔ یہ صفت تو اُس میں آج بھی ہے۔ نقیؔ اگر چہ افسانے لکھتا تھا مگر کبھی کسی کو سناتا نہیں تھا۔ میں نے تو کالج سے نکلنے کے کئی برس بعد لکھنا شروع کیا۔ لہذا نقیؔ نے بڑی ہوشیاری سے کالج کے دوچار ایسے افسانہ نگاروں اور شاعروں کو ڈھونڈ نکالا تھا جنھیں اپنی تخلیقات سنانے کا جنون تھا۔ نقیؔ اُن کے جنون کی قیمت وصول کرنا خوب جانتا تھا۔ میں اُس افسانہ نگارکا نام نہیں لوں گا۔ اب بھی ہندوستان میںحیات ہیں اور افسانے لکھ رہے ہیں۔ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ دو برسوں تک ہماری ہوٹلنگ کا سارا خرچ افسانہ نگار موصوف ہی برداشت کرتے تھے۔ دبیر پورہ میں ایک خاص ہوٹل تھا جہاں افسانہ نگار موصوف ہر شام افسانہ بہ دست آتے اور ہم دونوں فاقہ بہ شکم وہاں پہنچتے۔ افسانہ سنانے سے پہلے نقیؔ افسانہ نگار سے پوچھ لیتا تھا کہ افسانہ کے انجام پر ہیروئن زندہ رہے گی یا مر جائے گی۔ افسانہ نگار ہیروئن کی متوقع وفات حسرت آیات کا مژدہ سناتا تو نقیؔ کہتا۔ ’’ یار تمہارے افسانہ میں ہیروئن اس قدر کرب سے مرتی ہے کہ بھوکے پیٹ اس کرب کو برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ پہلے کچھ کھلاؤ پلاؤ۔ ہم میں صبر جمیل کا مادہ پیدا کرو۔ پھر ہیروئن کو شوق سے ہلاک کرنا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘
بیچارہ افسانہ نگار کھانے پینے کی چیزیں منگاتا۔ وہ افسانہ سناتا تو ہم افسانہ کم سنتے تھے اور ہیروئن کے مرنے کا انتظار زیادہ کرتے تھے۔ وہ ہر روز ایک مہلک افسانہ لے کر آتا اور ہمیں نئی زندگی عطا کرجاتا۔ اس کی ہیروئن کی موت کے ساتھ ہم کچھ اور بھی زندہ ہوجاتے تھے۔ یوں بھی ہمیں افسانہ سننے میں کچھ زیادہ زحمت نہیں اُٹھانی پڑتی تھی کیونکہ ہمارے افسانہ نگار دوست لفظوں کی مدد سے نہیں بکہ ڈیشوں (Dashes) کی مدد سے افسانہ لکھتے تھے جیسا کہ اُس زمانے میں افسانہ لکھنے کا رواج تھا۔ وہ افسانہ سناتے اور نقیؔ سنتے سنتے بیچ میں ڈیش(Dash) لگاتا جاتا تھا۔ کبھی کبھی میں نقی کا ہاتھ بٹانے کیلئے افسانہ نگار کے افسانے میں ڈیش (Dash) لگانے کی کوشش کرتا تو افسانہ نگار موصوف مجھے ٹوک دیتے تھے کہ ’’ یار تم ہمیشہ غلط جگہ ڈیش لگاتے ہو۔ تم افسانہ سنو۔ نقیؔ ڈیش لگاتا رہے گا۔‘‘
ڈیڑھ دو برس بعد افسانہ نگار نے جب محسوس کیا کہ افسانہ میں ہیروئنوں کی ہلاکت اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے تو ایک دن وہ زندہ ہیروئن کا افسانہ لے کر آگیا۔

بولا۔ ’’ آج میں ایک زندہ ہیروئن کا افسانہ لے کر آگیا ہوں۔‘‘
نقیؔ نے کہا ۔ ’’ یار! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہمیں تو اسے سلیبریٹ (Celebrate) کرنا چاہیے۔ اسی بات پر منگاؤ بریانی اور ڈبل کا میٹھا، افسانہ سنانے سے پہلے۔ اور افسانہ نگار کونقی کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔
جب افسانہ نگار موصوف نے دیکھا کہ ہیروئن چاہے زندہ رہے یا مرجائے اُن کی جیب پر کوئی خاص فرق نہیں پڑرہا ہے تو انھوں نے ہماری اجازت کے بغیر ہیروئنوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اور اب تک بڑے اہتمام سے ہلاک کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے بعد نقیؔ نے ’’ پاکٹ منی ‘‘ کے طور پر ایک اور افسانہ نگار کو پھانس لیا تھا۔
افسانہ نگار اور شاعر ہم سے خائف رہنے لگے تو ہم دونوں اپنا پیشہ بدل کر معاملات حُسن و عشق کے خصوصی مشیر بن گئے۔ جو کوئی عشق میں مبتلا ہوتا یا ہونا چاہتا تھا وہ ہم سے معاملات دل کے اسرار و رموز جاننے کے لیے آتا۔ نقیؔ کو شاید یاد ہوگا کہ اُس نے کئی دوستوں کی جانب سے اُن کی محبوباؤں کے نام محبت ناموں کے مسودے تیار کیے۔ دوستوں کی محبوباؤں کے جواب آتے تو وہ ان جوابات کی روشنی میں نئے نئے محبت نامے رقم کرتا تھا۔ ان میں سے کئی محبتیں کامیاب بھی ہوئیں اور اب خیر سے صاحب اولاد بھی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارے مشترکہ دوست رام چندرراؤ کلکرنی کی مثال دینا چاہوں گا کہ موصوف ایسے نکمّے واقع ہوئے تھے کہ محبت کرنے کے لیے کسی مناسب لڑکی کا انتخاب تک نہ کرسکتے تھے۔
ہم لوگ روز ٹرین سے یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ ایک دن کلکرنی نے کہا۔ ’’یار! تم لوگ الگ الگ محبت کرتے ہو ، میرا کوئی خیال نہیں کرتے۔ آخر میں بھی تو محبت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ نقیؔ نے کہا ۔ ’’ تم پہلے کسی لڑکی کا انتخاب کرو۔ پھر ہم تمہاری محبت کے لیے زور لگاتے ہیں‘‘۔ بولا۔ ’’ یہی تو نہیں کرسکتا۔ یہ کام بھی تم دونوں کو کرناہوگا۔ آخر دوست کس دن کام آئیں گے۔‘‘ دو دن بعد میں نے اور نقی نے اُس کے لیے ایک لڑکی کا انتخاب کیا جو اسی ٹرین سے سکندرآباد جایا کرتی تھی۔ کلکرنی نے لڑکی کو دیکھا تو بولا ۔ ’’ یہ تو بہت خوبصورت ہے ، مجھ سے کیونکر محبت کرے گی؟‘‘ ہم نے کہا۔ ’’ تم ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہو۔ انشاء اللہ گوہرمقصود مل جائے گا۔‘‘

اُس کے بعد ہر شام کلکرنی کو محبت کا درس دیا جانے لگا جسے وہ دوسرے دن صبح تک بھول جاتاتھا۔ وہ ہم سے سیکھ کر تو بہت کچھ جاتا تھا مگر اس بُت ناز کے سامنے پہنچتا تو حرف مدعا اس کی زبان پر نہ آتا تھا۔ جب وہ ہماری تربیت پر عمل کرنے سے قاصر رہنے لگا تو نقی نے ایک دن اُسے دھمکی دی کہ ’’ اگر تم اُس لڑکی کے سامنے اظہار محبت نہیں کرسکتے تو پھر اس لڑکی سے دست بردار ہوجاؤ تاکہ ہم اُس لڑکی سے محبت کریں۔ بلاوجہ ایک خوبصورت لڑکی کو ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ ‘‘ کلکرنی پر اس دھمکی کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ طے پایا کہ کلکرنی کی طرف سے ایک محبت نامہ اس لڑکی کے نام تیار کیا جائے جسے وہ دوسرے دن اُس لڑکی کو تھمادے گا۔ نقیؔ نے محبت نامے کا ایک زوردار مسودہ تیار کیا جس میں کلکرنی نے اپنی بزدلی کے مطابق کچھ ترمیم کرنی چاہی مگر نقیؔ راضی نہ ہوا۔ کلکرنی سے کہا گیا کہ وہ اس مسودہ کو فیر یعنی صاف کرکے لے آئے۔ مسودہ فیر ہوکر آیا تو دیکھا کہ اس میں جا بجا اِملا کی غلطیاں ہیں۔ نقی نے اُسے ڈانٹا کہ تم محبت نامہ کو صحیح طور پر نقل تک نہیں کرسکتے، محبت کیا خاک کرو گے۔ بالآخر نقیؔ کی ہینڈ رائٹنگ میں ہی محبت نامہ تیار ہوا ۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ کلکرنی اس محبت نامہ کو اُس لڑکی کے حوالے کرنے کے بعد چلتی ٹرین سے کود گیا تھا۔ لڑکی کو یا تو کلکرنی بھاگیا یا اُس کی یہ ادا بھاگئی کہ یہ سلسلہ یہاں سے جو آگے بڑھا تو وہ ڈرپوک اور بزدل کلکرنی جس کی زبان اظہار محبت کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتی تھی، ایک دن اتنا نڈر بن گیا کہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ بھگالے گیا۔ کلکرنی برہمن تھا اور وہ لڑکی اچھوت۔ کلکرنی اور اس لڑکی کے ارکان خاندان ہمارے پیچھے پڑ گئے کہ بتاؤ یہ دونوں کہاں ہیں۔ ہم دونوں کو پتہ تھا کہ کلکرنی کہاں ہے مگر نہ تو نقی نے اتہ پتہ بتایا اور نہ ہی میں نے۔ بعد میں کلکرنی جس کی بزدلی کا دوردور تک شہرہ تھا اپنی بیوی کے لیے سماج سے وہ جنگ کی کہ ہم سب دیکھتے رہ گئے۔ اگر نقیؔ نے مذاق مذاق میں اُسے نڈر نہ بنایا ہوتا تو وہ آج اتنی خوش حال زندگی کیونکر گزارتا۔ کلکرنی اور مسز کلکرنی اب بھی کبھی ملتے ہیں تو نقیؔ کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ نقی کے تحریر کردہ محبت ناموں نے کئی زندگیاں سنواریں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ نقی کے بعض محبت نامے خود اس کے کام نہ آسکے:
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
کالج سے نکلنے کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے راستوں پر چل پڑے مگر حیدرآباد کا ’’ اورینٹ ہوٹل ‘‘ وہ جگہ تھی جہاں ہم لوگ ہر شام ملا کرتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کا صحیح ادراک ہمیں اسی ہوٹل میں حاصل ہوا، اور یہیں ہم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ہوٹل کیا تھا ایک ایسا گھاٹ تھا جس پر ادیب، شاعر، مصور، سیاست داں، فلسفی سب ایک ساتھ چائے پیتے تھے۔ دنیا کے بہترین ادب سے ہم یہیں روشناس ہوئے اور زندگی کے تعلق سے ایک سنجیدہ اور معتبر رویہ اپنایا۔ ڈاکٹر یوسفؔ اور وقار لطیفؔ سے یہیں ملاقات ہوئی۔ نقی نے ایک سرکاری دفتر میں ملازمت اختیار کرلی تھی اور میں صحافی کی حیثیت سے حیدرآباد کے روز نامہ ’سیاست‘ سے وابستہ ہوگیا تھا۔ اُن دنوں ہم لوگوں کے مزاج میں ایک عجیب سا اضمحلال پیدا ہوگیا تھا، جو زندگی کے تضادات کے ادراک سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم لوگوں کی بنیادی شوخی و شرارت برقرار تھی۔ نقیؔ کی ایک خوبی مجھے ہمیشہ سے پسند رہی کہ جاگیردارانہ گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اُس نے زندگی کے لیے ہمیشہ ایک صحت مند اور ترقی پسندانہ رویہ اپنایا۔ کالج سے نکلنے کے بعد نقیؔ نے چھ برس حیدرآباد میں گزارے۔ اس کی افسانہ نگاری کا شوق بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔ پھر1961 ء میں ایک دن نقیؔ انگلستان کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اُس کے خطوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ وہاں کن مشکلات سے دوچار ہے۔ ہر خط میں اورینٹ ہوٹل کا حال یوں پوچھتا تھا جیسے یہ اُس کا رشتہ دار ہو۔ 1971ء میں جب یہ ہوٹل ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا تو اس نے مجھے ایک درد بھرا پُرسے کا خط لکھا۔

1961ء کے بعد نقیؔ سے بس چند ہی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ پچھلے سال وہ بین الاقوامی فلمی میلہ میں شرکت کے لیے دہلی آیا تھا۔ دس بارہ دن خوب ملاقاتیں رہیں۔ نقیؔ نے برطانیہ آکر انگریزی صحافت میں جو مقام حاصل کیا ہے اُسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ دہلی کی تفصیلی ملاقاتوں میں مَیں نے اندازہ لگایا کہ آج سے پچیس برس پہلے ہم دونوں نے زندگی کو دیکھنے پرکھنے اور برتنے کے لیے جو زاویۂ نگاہ اپنایا تھا وہ اب بھی ہم دونوں کے پاس محفوظ ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لندن جیسے شہر میں اتنے برس گزارنے کے باوجود اُس کا زاویۂ نگاہ گرد آلود نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے زندگی کی نہیں بلکہ ایک زاویۂ نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی زاویۂ نگاہ سے میں موسیٰ ندی کو دیکھتاہوں اور اسی زاویۂ نگاہ سے نقیؔ ٹیمز کو دیکھتا ہے اور اب تو میں نے ٹیمز کو بھی دیکھ لیا ہے۔ 1961ء سے پہلے لندن میرے لیے دیگر شہروں کی طرح ایک شہر تھا، مگر جب سے نقیؔ اس شہر میں آباد ہوا ہے میں لندن کی ہر تبدیلی کا نقیؔ کے پس منظر میں جائزہ لیتا ہوں۔ مارگریٹ تھیچر پھر سے برسراقتدار آتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ اس سے نقیؔ کا بھلا ہوگا یا نہیں۔ شہر عمارتوں سے نہیں بنتا بلکہ اس شخص سے بنتا ہے جو اس میں آباد ہوتا ہے۔ پھر اس شہر میں میرا سب سے پیارا دوست رہتا ہے ۔ اس کے حوالے سے اب ٹیمز بھی اپنی لگتی ہے۔ ٹرافلگاراسکوائر بھی اپنا لگتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بکنگھم پیلیس بھی اپنا ہی لگتا ہے۔ یہی میرا زاویۂ نگاہ ہے اور یہی زاویۂ نگاہ نقیؔ کا بھی ہے۔ میں اپنی نوجوانی کے دوست نقیؔ تنویر کو اُس کی کتاب ’’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہوں:
الٰہی یہ بِساطِ رقص اور بھی بسیط ہو
صدائے تیشہ کامراں ہو کوہکن کی جیت ہو
( مارچ1984ء )