ساحر لدھیانوی (امن اور محبت کے شاعر و نغمہ نگار)

ڈاکٹر امیر علی
ساحر لدھیانوی جدید دور کے ایک ممتاز اور ا ہم شاعر ہیں۔ اردو کے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں میں وہ خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ اردو ادب میں جدید نظم کی صنف کو فروغ دینے اوراس کو پروان چڑھانے میں ساحر نے اہم رول ادا کیا ہے، جس کے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صنفِ غزل اور گیتوں کو بھی انہوں نے نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ ساحرؔ ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جن کی قدر شناسی میں اُن کے مداحوں اور ادب دوستوں نے اُن کی شخصیت اور شاعری کی قدر کی اور اس کے علاوہ تنقید نگاروں اور نقادوں نے بھی ساحر کے کلام کو پسند کیا ہے اور ان کی شخصیت سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔ فلمی گیت کار کی حیثیت سے بھی ساحر نے عوام کے قریب ہوئے اور عزت، شہرت اور دولت کمائی تھی مگر انہوں نے ہمیشہ غریبوں ، مزدوروں ، مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کی حمایت اور  مدد کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی ۔ ساحر نے 8 مارچ 1921 ء کو لدھیانہ (پنجاب) کے ایک جاگیردار گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ۔ پہلی نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی پیدائش پر بڑا جشن منایا گیا تھا ۔ والدین نے قرآن مجید دیکھ کر عبدالحئی نام تجویز کیا ۔ ساحر لدھیانوی کے اجداد قوم کے گوجر تھے ۔ ان کے دادا فتح محمد لدھیانہ کے ایک بہت بڑے زمیندار تھے۔ سیکھے وال اور اس کے نواح میں ان کی بہت بڑی زمینداری تھی اور ان کا شمار علاقے کے بڑے رئیسوں اور جاگیرداروں میں ہوتا تھا ۔ ساحر کے والد کا نام چودھری فضل محمد ہے ۔ ساحر کی والدہ سردار بیگم کشمیر انسل خاتون تھیں۔ ساحر کے نانا عبدالعزیز بہت بڑے ٹھیکے دار تھے ۔ ان کی اولاد میں دو لڑکے محمد شفیع ، عبدالرشید اور دو لڑکیاں شاہ بیگم اور سردار بیگم تھیں۔ ساحر کی والدہ سردار بیگم ان سب میں چھوٹی تھیں۔

لدھیانہ جسے ساحر کا مولد ہونے کا فخر حاصل ہے اسی نام کے ضلع کا صدر مقام اور ریاست پنجاب کا ایک اہم صنعتی اور تجارتی مرکز رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ علم و ادب کا گہوارہ بھی ہے ۔ یہ شہر دریائے شلج سے 11 کیلو میٹر کے فاصلے پر بڈھا نالہ کے کنارے پر واقع ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلے’’میر ہوتا‘‘ نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ۔ لودھی شہنشاہوں نے اس مقام پرایک بڑا شہر آباد کیا ۔ اس نسبت سے شہر کا نام لدھیانہ مشہور ہوا جو بعد میں کثرتِ استعمال سے لدھیانہ ہوگیا ہے ۔ ساحر نے اس شہر کے جس تہذیبی اور سماجی ماحول میں آنکھ کھو لی تھی وہاں ایک طرف زوال یافتہ جاگیر داریت کی فرسودہ باقیات تھیں تو دوسری طرف انگریز سامراج کے زیر سایہ ایک نیم سرمایہ دارانہ صنعتی نظام تشکیل پا رہا تھا ۔ ایک طرف انگریزوں کے وفادار رئیس اور زمیندار تھے جو غریب کسانوں اور مزدوروں کا خون چوس کر اپنے عیش و نشاط اور تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے اور دوسری طرف وہ بے زمین کسان اور مزدور تھے جنہیں پیٹ بھر  روٹی بھی مشکل سے میسر آتی تھی۔ ملک میں مختلف صنعتوں کے قیام کے بعد انہی کسانوں کی اولاد کارخانوں میں کام کرنے لگی تھی اور مزدوروںکا ایک طبقہ جنم لے رہا تھا اور اسی کے ساتھ متوسط طبقے کے وہ نوجوان تھے جو انگریزی تعلیم پاکر سیاسی اور سماجی اعتبار سے زیادہ باشعور ہوگئے تھے ۔

ساحر کے والد چودھری فضل محمد بھی ان تمام عادات و صفات کے حامل تھے جوعام جاگیردار طبقے کے افراد سے مخصوص تھیں۔ دوسرے زمینداروں کی طرح وہ بھی رعیت اور کسانوں پر ہر طرح کی زیادتیوں کو روا رکھتے اور خود ہمہ وقت عیش و عشرت میں مگن رہتے تھے ۔ جب داد عیش دینے کیلئے زمینداری کی آمدنی ناکافی ہونے لگی تو انہوںنے موروثی جائیداد کو کوڑیوں کے دام میں فروخت کرنا شروع کردیا تھا ۔ ساحر کی والدہ جنہوں نے ایک جداگانہ ماحول میں نشو و نما پائی تھی اس طرز زندگی سے مطابقت پیدا نہیں کرپائیں ۔ ساحر کی والدہ نے اپنے شوہر کو اس روش سے ہٹانے کی بہت کوشش کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئیں ۔ آخر کار مایوس ہوکر اپنے شوہر سے ترک تعلق کرلیا اور ساحر کے ہمراہ اپنے بھائی کے گھر منتقل ہوگئیں۔ اس وقت ساحر کی عمر صرف چھ (6) ماہ کی تھی ۔ ساحر کے والد نے اپنی زمین کے قیمتی قطعات فروخت کردیئے تھے اور یہ سلسلہ مزید جاری تھا ۔ قانونی طور پر موروثی جاگیر کی آمدنی سے وہ متتمع ہوسکتے تھے لیکن اسے فروخت کرنے کا حق انہیں حاصل نہ تھا ۔ چنانچہ ساحر کی والدہ نے عدالت میں شوہر کے خلاف نالش کردی اور درخواست کی کہ ان کے شوہر کو مور وثی جائیداد فروخت کرنے سے باز رکھا جائے اور جو زمینات غیر قانونی طورپر فروخت کی جاچکی ہیں، انہیں واپس دلوایاجائے ۔ یہ مقدمات عدالت میں 18 سال تک چلتے رہے۔ ساحر کی والدہ کا قیمتی اثاثہ اور زیور سب مقدمہ بازی کی نذر ہوگیا۔ مگر انہوںنے آخری وقت تک مقدمات کا سامنا کیا اور متنازعہ فیہ زمینوں کے بعض خریداروں سے رقم لیکر انہیں راضی نامے لکھ دیئے اور ان پیسوں سے مقدموں کے اخراجات اور گھر کے خرچ کی تکمیل کرتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سو ایکڑ قیمتی ارا ضی پر مشتمل تقریبا ً 173 قطعات کو ساحر کے والد نے کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے تھے اور جو زمین ان کے قبضے میں تھی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ساحر کے والد کا شمار لدھیانہ (پنجاب) کے رئیسوں اور جاگیرداروں میں ہوتا تھا ۔ عدالت میں مقدمات کی وجہ سے لوگ ساحر کی والدہ کے دشمن ہوگئے تھے جنہوں نے ناجائز طور پر زمین خریدی تھی ۔ ساحر کی والدہ کو ہمیشہ یہ خوف لاحق ہوتا تھا کہ کہیں ان کے بیٹے کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے ۔ اس لئے انہیں اکیلے گھر سے باہر جانے نہیں دیتی تھیں۔ جب ساحر تعلیم پانے کی عمر کو پہنچے تو انہیں مالوہ خالصہ اسکول میں شریک کروادیا گیا جو ان کے گھر سے بہت قریب تھا ۔ جب مقدموں کے فیصلے ساحر کی والدہ کے حق میں صادر ہونے لگے تو ساحر کے والد کو پریشانی لاحق ہوئی ۔ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو حاصل کر کے ا پنی نگرانی اور سرپرستی میں لے لیں تو ساحر کی والدہ جو مقدمے لڑ رہی ہیں بے دست و پا ہوجائے گی ۔ مگر اس دوران ساحر کے والد نے دوسری شادی کرلی لیکن اس بیوی سے انہیں کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوئی اور ساحر ہی تنہا موروثی جائیداد کے وارث تھے ۔ چنانچہ ساحر کے والد نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے بیٹے کو حوالے کیاجائے ۔ اس وقت ساحر پانچویں جماعت میں پڑھ رہے تھے۔

جب عدالت میں پوچھا گیا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ساحر نے جواب دیا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن قانونی طور پر والد کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھیں۔ بیٹے کو والدہ کی سرپرستی میں دینے کیلئے کوئی معقول وجہ درکار تھی ۔ اتفاق سے ساحر کے والد نے عدالت میں جو بیان دیا تھا اس سے ان کا ادعا کمزور پڑگیا ۔ انہوں نے عدالت کے استفسار پر یہ یقین دہانی کی کہ سوتیلی ماں کا سلوک بیٹے کے ساتھ ٹھیک رہے گا ۔ پھر عدالت میں معزز جج نے ان سے یہ سوال کیا کہ وہ بیٹے کی تعلیم وتربیت کا کیا انتظام کریں گے تو ساحر کے والد نے جواب دیا کہ ’’پڑھائے وہ اولاد کو ، جس کو نوکری کروانا ہو ۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے ، وہ گھر بیٹھ کر کھائے گا ۔ یہ جواب سن کر معزز جج نے فیصلہ سنایا کہ بچے کو ماں کے ساتھ ہی رکھا جائے ۔ کیونکہ وہ لڑکے کو تعلیم و تربیت دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اچھی پرورش بھی کر رہی ہے اور اگر اسے اپنے والد کے ساتھ رکھا گیا تو وہ ان پڑھ رہ جائے گا ۔ چنانچہ ساحر اپنی والدہ کے ہمراہ ہی رہنے لگے۔ ساحر اپنی والدہ کی سرپرستی میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ مدرسہ میں ساحر کا شمار محنتی اور ہونہار طالب علموں میں ہوتا تھا ۔ ساحر اردو اور فارسی کی تعلیم اس وقت کے مشہور اساتذہ مولانا فیا ض ہریانوی سے حاصل کی تھی ۔ ان کی فیض تربیت سے ساحر نہ صرف ان زبانوں پر عبور حال کئے بلکہ شعر و شاعری میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی اور وہ خود بھی شعر کہنے لگے تھے ۔ ساحر کی پیدائش پر والدین نے کلام مجید دیکھ کر ان کا نام عبدالحئی تجویز کیا تھا اور اب ساحرؔ کو اپنے جنم پر شاعری میں تخلص کی تلاش ہوئی توانہوں نے کلام اقبال سے رجوع کیا ۔ اقبال کی نظم ’’داغ‘‘ پر پہنچے توان کی نظر اس شعر پر رک گئی۔
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیرازا بھی
سینکڑوں ساحربھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی
انہیں ساحر کا لفظ بہت پسند آیا اور یوں عبدالحئی ساحر لدھیانوی بن گئے اور وہ عام طور پر اسی نام و تخلص ہی سے جانے جاتے ہیں اور لوگ ان کے اصل نام سے بہت کم واقف ہیں۔ ساحر انٹرنس پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا تھا ۔ بی اے میں ان کے مضامین فلسفہ اور فارسی تھے لیکن ان کو علم معا شیات اور سیاسیات سے دلچسپی تھی اور وہ ذاتی طور پر ان علوم کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا ۔ اسی زمانے میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر آل انڈیا اسٹوڈنس فیڈریشن سے ان کا ربط ہوا اور ساحر اس تنظیم کے کاموں میں حصہ لینے لگے اور عوامی جلسوں میں اپنی سیاسی نظمیں سنانے لگے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ملک میں انگریزی حکومت کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک پورے شباب پر تھی ۔ کسی دن ساحر جلسوں میں تقریر کرنے کیلئے جاتے اور گھر سے دیر تک غائب رہتے تو ان کی والدہ دشمنوں کا خیال کر کے بیٹے کے تعلق سے پریشان ہوتیں مگر پھر انہیں ساحر کی سرگرمیوں کا علم ہوا تو انہوں نے ساحر کو اطلاع دیئے بغیر ہی ان کے بعض جلسوں میں شریک ہوئیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کی تقریر کو بڑے ہی انہماک سے سن رہے ہیں اوران کی آواز میں آواز ملا کر نعرے لگا رہے ہیں تو انہیں اطمینان ہوگیا کہ ان کے بیٹے کو کئی گزند نہیں پہنچا سکتا ہے۔ (سلسلہ جاری ہے)