عابد علی خاں

 

میرا کالم                       مجتبیٰ حسین
(پہلی قسط)

جب کوئی بڑا آدمی دنیا سے گزرتا ہے تو اس کے ساتھ بہت کچھ گزر جاتاہے ۔ عابد علی خاں صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے تو شخصی طور پر مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے میرے وجود کا وہ حصہ بھی جدا ہوگیا ہے جو اُن کی ذات کا مرہون منت تھا اور جس کی تشکیل انہوں نے قدم قدم پر پچھلے چار دہوں میں کی تھی ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ان کے ساتھ وہ حیدرآباد بھی اُٹھ گیا جسے انہوں نے بڑے جتن کے ساتھ اپنے اندر بسایا تھا ۔ حیدرآباد کے اندر ان کی حیثیت خود ایک الگ حیدرآباد کی تھی۔ ان کے اندر وہ حیدر آباد آباد تھا جو صرف عمارتوں اور شاہراہوں سے عبارت نہیں تھا بلکہ وہ حیدرآباد آباد تھا جو انسانی تہذیب کی بہترین ا قدار بہترین روایات اور بہترین جذبوں سے مزین تھا ۔ وہ جب تک زندہ رہے خود حیدرآباد کے اندر حیدرآبادی تہذیب کے ایک جزیرے کے طور پر زندہ رہے ۔ سچ پوچھئے تو وہ حیدرآباد جسے کہ جیسا ہونا چاہئے تھا وہ ان کے اندر آباد تھا ۔

میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اپنی بات کو کہاں سے شروع کروں۔ چار پانچ دہوں پر پھیلا ہوا یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے انہیں دیکھا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب چھ سات سال کا تھا تو انہیں سب سے پہلے اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگرکے ساتھ کلیانی اسٹیٹ میں دیکھا تھا جہاں میرے والد تعلقدار تھے ۔ وہ ان کی طالب علمی کا زمانہ تھا ۔ ’’سیاست ‘‘ کا جب پہلا شمارہ 15 اگست 1949 ء کو شائع ہوا تھا تو ، تب میں حیدرآباد میں تھا ۔ 1953 ء میں جب میں عثمانیہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا تب بھی ، سیاست میں چھوٹی موٹی تحریریں لکھا کرتا تھا ۔ اپنا نام پکی ر وشنائی میں چھپا ہوا سب سے پہلے ’’سیاست ‘‘ ہی میں دیکھا ۔ 1956 ء میں تعلیم ختم کرنے کے بعد میں ’’سیاست ‘‘ سے باضابطہ طور پر وابستہ ہوگیا ۔ مجھے ’’سیاست‘‘ کے وہ ابتدائی دن اچھی طرح یاد ہیں جس کا دفتر ٹین کی چھت والے تین کمروں پر مشتمل تھا ۔  اسی کے ایک ہال میں ایک لیتھو مشین تھی جس پر ’’سیاست‘‘ چھپتا تھا ۔ سیاسی ، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے وہ عجیب پرآشوب دور تھا ۔ اقدار ٹوٹ رہی تھیںپرانا معاشرہ بکھر رہا تھا ، ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے جوڑنے کی کڑیاں نہیں مل رہی تھیں۔ عابد علی خاں نے اسی ایک چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کران کڑیوں کو جوڑنے ، ایک نئی سوچ پیدا کرنے ، جینے کے ایک ڈھنگ کو آراستہ کرنے کا آغاز کیا ۔ یہیں بیٹھ کر وہ اور ان کے جگری دوست جگرؔ صاحب اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا کرتے تھے ۔ دفتر میں کام کرنے والے بھی چار پانچ ہی تھے۔ وہ اخبار کے ایڈیٹر ہی نہیں تھے سب کچھ تھے۔ ان دنوں اردو صحافت شدتوں کا شکار تھی، شدتوں اور انتہا پسندی کے درمیان عابد علی خاں صاحب نے ’’سیاست‘‘ کیلئے اعتدال پسندی ، غیر جانبداری اور ایماندارانہ میانہ روی کی روش اپنائی ۔ ان دنوں کے پس منظر میں یہ سفر کتنا کٹھن تھا اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس کربناک دور سے گزرچکے ہیں۔

اب ان کی 72 سالہ زندگی کی طرف دیکھتا ہوں، جس کے کم و بیش پینتالیس برسوں کا میں عینی شاہد ہوں ، تو احساس ہوتا ہے کہ عابد علی خاں ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو کسی مخصوص پس منظر کے سبب اچانک بڑے آدمی بن جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے ایک معزز جاگیردار گھرانے میں وہ ضرور پیدا ہوئے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے اس پس منظر کو ا پنی شناخت کا حصہ بننے نہیں دیا ۔ لمحہ لمحہ جی کر انہوں نے اپنی شخصیت کی عمارت کھڑی کی تھی ۔ ایک ایک لمحہ کا صحیح ، دانشمندانہ اور بھرپور استعمال کر کے ، محض ا پنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر وہ بڑے آدمی بنے تھے ۔ ہر چھوٹے سے چھوٹی بات کا وہ تفصیل سے جائزہ لیتے تھے ۔ شہر کے کسی بھی واقعہ کو وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کا انداز اُن کا اپنا تھا ۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کوئی کام جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں کیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی پالیسی ان کی اپنی شخصی سوچ کی آئینہ دار تھی ۔ بہت عرصہ پہلے جب ’’سیاست‘‘ ابھی اتنا بڑا اخبار نہیں بنا تھا تب بھی ان کی شخصیت نہایت باوقار تھی اور بعد میں جب ’’سیاست‘‘ ہندوستان کا دوسراکثیر الاشاعت اخبار بن گیا تو ان کے مزاج کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ان کے مزاج میں سادگی اور تمکنت دونوں کا جو حسین امتزاج تھا وہ مجھے کہیں اور نظر نہیں آیا ۔ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ آدمی جب اردو کا کوئی اخبار نکالتا ہے تو اسے اپنی خودداری کو بالائے طاق رکھ دینا پڑتا ہے ۔ عابد علی خاں ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کٹھن سے کٹھن مرحلے میں بھی اپنی خودداری اور انا کی حفاظت کی ۔ان کی وہی شخصی خودداری بعد میں اردو صحافت کی خودداری کی علامت بن گئی ۔

’’سیاست‘‘ کے اجراء سے بہت پہلے ، اُن کے زمانۂ طالب علمی میں ہی ان کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا تھا ۔ 1945 ء میں حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی جو کل ہند کانفرنس ہوئی تھی اس کے وہ معتمد عمومی بھی رہے۔ یہ ایک عہد آفریں کانفرنس تھی جس کی بنیاد پر کرشن چندر نے اپنا شہرۂ آفاق رپورتاژ ’’پودے‘‘ لکھا تھا ۔ ان کا یہ ادبی پس منظر ’’سیاست‘‘ کیلئے بھی ممد و معاون ثابت ہوا اور حیدرآباد کے سارے اہم ادیبوںاور صحافیوں کا تعاون’’سیاست‘‘ کو ہمیشہ حاصل رہا ۔ مخدومؔ محی الدین جب بھی کوئی نئی نظم یا غزل کہتے تو وہ سب سے پہلے ’’سیاست‘‘ میں ہی شائع ہوتی تھی ۔ سکندر علی وجدؔ ، اشفاق حسین ،سلیمان اریبؔ ، شاہدؔ صدیقی ، عزیزؔ قیسی، میر حسن ، بھارت چند کھنہ ، نریندر لوتھر ، رشید قریشی ، اختر حسن، شاذؔ تمکنت ، عوض سعید، مغنی تبسم ، وحید اختر ، زینت ساجدہ ، اقبال متین ، جیلانی بانو ، آمنہ ابوالحسن ، اوج یعقوبی ، واجدہ تبسم اور بیسیوں حیدرآبادی ادیب اور شاعر اپنی تخلیقات سب سے پہلے ’’سیاست‘‘ میں ہی چھپنے کیلئے بھیجتے تھے ۔ ’’سیاست‘‘ کو اپنے ابتدائی دور میں ہی نہایت سلجھے ہوئے صحافیوں کی خدمات حاصل رہیں جو صحافت کو صرف ذریعۂ معاش نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے ۔ ہاشم سعید ،  غلام حیدر، احسن علی مرزا ، احمد معظم ، اسد جعفری ، مصطفی علی اکبر، مہدی عابدی، ٹی این دھار ،شریف اسلم ، وہاب حیدر سب کسی نہ کسی دور میں ’’سیاست‘‘ سے وابستہ رہے ۔ سچ تویہ ہے کہ ان میں سے اکثر صحافیوں کی ذہنی تربیت ’’سیاست‘‘ میں ہی ہوئی ۔ شاہد صدیقی برسوں ’’سیاست‘‘ کا مزاحیہ کالم ’’شیشہ و تیشہ‘‘ لکھتے رہے۔

میں کبھی اپنے بارے میں سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میری ساری ادبی اور صحافتی زندگی ’’سیاست‘‘ ہی کی دین ہے ۔ ابتداء میں آٹھ برس تک میں نے ’’سیاست‘‘ میں صحافی کی حیثیت سے ہی کام کیا مگر جب 1962 ء میں شاہد صدیقی کا انتقال ہوا تو ’’سیاست‘‘ کا طنزیہ و مزاحیہ کالم شیشہ و تیشہ کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ پتہ نہیں عابد علی خاں صاحب نے اس کام کیلئے میرا انتخاب کس بناء پر کیا تھا کیونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی کوئی مزاحیہ تحریر نہیں لکھی تھی ۔ مگر اب احساس ہوتا  ہے ، ان کا انتخاب بہت سوچا سمجھا تھا ۔ یقین مانیئے اگر وہ مجھے مزاحیہ کالم لکھنے کا کام نہ سونپتے تومجھے پتہ ہی نہ چلتا کہ مجھ میں مزاح لکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بعد میں ادبی حلقوں میں میری شناخت ایک مزاح نگار کی حیثیت سے ہونے لگی اور اب تو اپنی وہی ایک پہچان رہ گئی ہے ۔

مجھے ’’سیاست‘‘ کے ابتدائی چھ سات برس اب تک یاد ہیں جب اخبار کے قدم پوری طرح جم نہیں پائے تھے ۔ عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب اخبار کے کام میں لگاتار اور مسلسل مصروف رہتے تھے ۔ ایک لمحہ کیلئے بھی ان دونوں کی مصروفیت رُکنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔ دفتر کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں شام کے وقت عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب چائے پینے کیلئے اکٹھا ہوتے تھے ۔ میں بھی چائے میں شریک رہتا تھا ۔ اخبار کے مسائل پر چائے کے دوران ہی دس پندرہ منٹ میں گفتگو ہوجاتی تھی ۔ اس کے بعد یہ پھر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے ۔ ابتدائی چھ سات برسوں میں کئی مرحلے ایسے آئے جب لگتا تھا کہ اخبار بند ہوجائے گا۔ اخبار کو چلانے کیلئے عابد علی خاں صاحب نے اپنی جائیداد کا  بڑا حصہ فروخت کردیا تھا ۔ سخت آزمائش کے دن تھے ۔ حیدرآباد کی اردو صحافت میں اُن دنوں سنسنی  خیزی کا دور دورہ تھا اور ’’سیاست‘‘ نے سنسنی پھیلانے والی خبروں کی اشاعت سے ہمیشہ گریز کیا ۔
مجھے 5  نومبر 1956 ء کی وہ شام اچھی طرح یاد ہے جب معمول کی چائے نوشی کے دوران میں نے محسوس کیا کہ جگر صاحب کے چہرے پر گہری فکرمندی اور تشویش کے آثار نمایاں ہیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جگر صاحب نے عابد علی خاں صاحب سے کہا ’’نواب ! اخبار کے حالات ناگفتہ ہوتے جارہے ہیں ۔ آخر ہم کب تک خسارے میں اخبار کو چلانے کی آزمائش سے گزرتے رہیں گے ۔ میری رائے ہے کہ نومبر کے بعد اخبار کو بند کر دیا جائے ۔ ‘‘ عابد علی خاں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔ مجھے ان کے چہرے پر فکرمندی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آئے۔ وہ حسب معمول نہایت پرسکون ، شانت اور پراعتماد تھے ۔ جلدی جلدی میں چائے پی کر جگر صاحب کام پر جانے لگے تو پیلس ٹاکیز میں چل رہی ایک نئی فلم کا پاس مجھے دیتے ہوئے ہدایت کی کہ میں سیکنڈ شو میں جاکر فلم دیکھوں اور اگلے ہفتہ اس پر تبصرہ لکھوں۔ چنانچہ میں نے لیٹ شو  میں فلم دیکھی اور بارہ بجے کے قریب ’’سیاست ‘‘ کے دفتر میں اپنی سائیکل لینے کی غرض سے پہنچا تو دیکھا کہ جگر صاحب دیوانہ وار ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے گلی میں آرہے ہیں۔ مجھے دیکھا تو بولے ’’ہمارے کاتب حضرات ابھی کام ختم کر کے گئے ہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ معظم جاہی مارکٹ کے چوراہے پر یا ’’یوسفین کیفے ‘‘ میں ہوں۔ تم انہیں فوراً بلاکر لے آؤ‘‘۔ اتفاق دیکھئے کہ سیاست کے سینئر کاتب غفار صاحب اور دو تین کاتب حضرات مجھے وہاں مل گئے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ جگر صاحب نے انہیں فوراً دفتر پر آنے کیلئے کہا ہے ۔ جگر صاحب کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا تھا ۔ میں دفتر میں واپس پہنچا تو دیکھا کہ جگر صاحب ٹیلی پرنٹر پر کھڑے کھڑے کسی خبر کا جلدی جلدی ترجمہ کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ برطانیہ نے نہر سوئیز پر حملہ کردیاہے ۔ بعد میں ’’سیاست‘‘ کا اُس دن کا پورا پہلا صفحہ جو لکھا گیا تھا وہ بدل دیا گیا اور اس کی جگہ نہر سوئیز پر برطانیہ کے حملہ کی خبر کی تازہ ترین تفصیلات شائع کی گئیں۔ دفتر میں صبح کی اولین ساعتوں تک کام چلتا رہا اور جب اخبار چھپ کر بازار میں آیا تو سارے شہر میں ’’سیاست‘‘ کی دھوم مچ گئی اور گلی گلی میں اس کے چرچے ہونے  لگے کیونکہ نہر سوئیز پر حملہ کی خبر شہر کے کسی بھی زبان کے کسی بھی اخبار میں شائع نہیں ہوئی تھی ۔ اس زمانہ میں اتنے ذرائع ابلاغ بھی نہیں تھے ۔ اخبار ہی خبروں کی ترسیل کا اہم ذریعہ تھا ۔ ان دنوں حیدرآباد کے سارے اخبارات عموماً رات میں ساڑھے گیارہ بجے تک اپنی آخری کاپیاں چھپنے کے لئے بھیج دیتے تھے ۔ اس رات کے بعد سے جگر صاحب نے ’’سیاست‘‘ کی آخری کاپی تیار کرنے کا وقت دیڑھ بجے کردیا ۔ اس طرح اخبار کی تعداد اشاعت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ (نومبر 1992 ء)