’آپ‘ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا…؟

ظفر آغا
اروند کجریوال کو جیسے ہی اقتدار کی پیشکش ہوئی، انھوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرلیا، اس طرح سیاست کے میدان میں انھوں نے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ کیونکہ شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہندوستان یا دنیا کے کسی ملک میں ایسی اُبھری ہو، جو اپنے وجود کے بعد صرف سال بھر کے اندر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہو، جب کہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے یہ کمال کردِکھایا۔ یہی سبب ہے کہ اِن دنوں صرف دہلی ہی نہیں، بلکہ پورے ہندوستان میں کجریوال اور اُن کی پارٹی کی دھوم ہے۔راقم حال ہی میں اتر پردیش کے دورہ سے واپس ہوا ہے۔ اس سفر میں میں جہاں بھی گیا کجریوال اور ان کی پارٹی کا چرچا تھا، جس کو دیکھو وہ عام آدمی پارٹی (آپ کی پارٹی) کا ذکر کر رہا تھا۔ گوکہ دیہاتوں میں عام آدمی پارٹی کا اثر نہیں دِکھائی دیا، تاہم شہروں میں کجریوال کی پارٹی کا اثر ضرور دیکھنے کو ملا۔ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ’’چھ ماہ کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کیا گل کھلائے گی؟‘‘۔ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت دے گا کہ عام آدمی پارٹی دہلی کی طرح پورے ہندوستان کے سیاسی اُفق پر چھا جائے گی یا نہیں!۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر اس پارٹی نے دہلی میں یہ کرشمہ کس طرح کردِکھایا؟ اور کیا عام آدمی پارٹی وہ سب کچھ کرپائے گی، جس کا اُس نے وعدہ کیا ہے؟۔ سچ بات تو یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا صحیح جواب نہیں ہے۔ یہ بات اگر اروند کجریوال سے بھی پوچھی جائے تو اس کا جواب شاید وہ بھی نہ دے سکیں، لیکن میرے نزدیک اس کامیابی کے دو تین سیاسی وجوہات ہیں، جن کے سبب اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کو حیرت ناک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی عوام 25، 30 برسوں کے بعد سیاسی پارٹیوں اور ان کے رویہ سے اس قدر بدظن ہو جاتے ہیں کہ وہ ان پارٹیوں کو اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں اور برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کی بجائے کسی نئی سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈر پر فدا ہو جاتے ہیں۔

چنانچہ 1970ء کی دہائی کے اوائل تک کانگریس پارٹی اور اس کی قائد آنجہانی اندرا گاندھی کا ڈنکا بج رہا تھا، حد یہ ہے کہ کانگریسیوں نے ہندوستان کی تشبیہ اندرا گاندھی سے دے ڈالی تھی۔ اسی دوران اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش بنواکر ساری دنیا میں اپنی دھاک جمالی تھی اور اس کے ساتھ ہی ملک میں ان کے تمام سیاسی حریف بونے نظر آنے لگے تھے، جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ کانگریس پارٹی اور آنجہانی اندرا گاندھی کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور خود کانگریس میں اندرا گاندھی کی خوشامد کا کلچر پیدا ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد جب اندرا گاندھی کی مخالفت شروع ہوئی تو انھوں نے ایمرجنسی نافذ کرکے اپنے حریفوں کو جیل میں ڈال دیا اور اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو ہندوستان کے شہزادہ کے طورپر پیش کردیا۔

لب لباب یہ کہ اندرا کانگریس جب اپنے عروج پر پہنچ گئی تو 1977ء میں عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی یکایک جنتا پارٹی کا جنم ہوا، جس کے لیڈر اُس وقت جے پرکاش نارائن تھے۔ صرف دو تین مہینوں کے دوران آنجہانی اندرا گاندھی کے خلاف ملک میں ایسی لہر چلی کہ عام انتخابات میں کانگریس پارٹی نہ صرف اقتدار سے باہر ہو گئی، بلکہ خود اندرا گاندھی بھی چناؤ ہار گئیں۔

اسی طرح 1980ء کی دہائی میں راجیو گاندھی بھی سیاسی اُفق پر چھائے ہوئے تھے، جن کے پاس چار سو سے زائد ممبرانِ پارلیمنٹ تھے۔ پورے ملک میں راجیو گاندھی کا بول بالا تھا، لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے راجیو گاندھی کے دماغ پر اقتدار کا نشہ ایسا طاری ہوا کہ وہ خود کو سنبھال نہ سکے، یہاں تک کہ راجیو گاندھی کی نظر میں اپنے ساتھیوں کا بھی پاس و لحاظ نہ رہا۔

اس کے بعد ہی راجیو گاندھی کے خلاف 1986ء میں وشوناتھ پرتاب سنگھ کھڑے ہوگئے اور دو سال کے اندر انھوں نے راجیو گاندھی کو اقتدار سے باہر کرکے مرکز میں اقتدار سنبھال لیا۔کچھ اسی طرح پچھلے دس برسوں میں لوگ کانگریس کی بدعنوانیوں اور بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست سے اُوب چکے ہیں۔ اس وقت عوام اس موقف میں نظر آرہے ہیں کہ روایتی سیاسی پارٹیوں کو ویسا ہی مزہ چکھایا جائے، جس طرح دہلی کے عوام نے چکھایا ہے۔ امکان یہ ہے کہ دہلی کی طرح 2014ء کے عام انتخابات کے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ یعنی 1970ء اور 1980ء کی دہائی کی طرح ہندوستان کے عوام روایتی سیاسی پارٹیوں کے رویوں سے نہ صرف ناراض ہیں، بلکہ ان سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی، اس بات کی عکاس ہے۔

بہت ممکن ہے کہ شمالی ہندوستان میں 2014ء کے عام انتخابات کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سے جُڑکر ایک نیا تجربہ کرڈالیں۔ لیکن راقم کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کجریوال، جنتا پارٹی اور وی پی سنگھ کی طرح عوام کی امیدوں پر کھرے اُترنے والے نہیں ہیں۔ جس طرح 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے ختم ہوتے ہوتے جنتا پارٹی اور جنتادل کا سورج غروب ہو گیا تھا، کچھ ایسا ہی حشر عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کا بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حالات پر گہری نظر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ ’’یہ نیا بلبلہ کب پھوٹتا ہے‘‘۔