۔2019  کے انتخابات ’’سیکولرازم بمقابلہ فرقہ پرستی‘‘

غضنفر علی خان
2019 ء میں جو عام انتخابات ہونے والے ہیں، وہ ایک صورت میں سیکولرازم اور فرقہ پرستی میں آر پار کی لڑائی ہوں گے۔ اگر آج اپوزیشن پارٹیاں جو کوشش فرقہ پرست بی جے پی کے خلاف محاذ بنانے کی کررہی ہیں، کامیاب ہوجائے تو ایسا ہوگا۔ ورنہ بی جے پی اور اس کی دوسری ہمنوا پارٹیاں اپنا پرچم لہرانے لئے خم ٹھونک کر کھڑی رہیں گی۔ آج کا ہندوستان پہلے سے مختلف ہے۔ آج کل فرقہ پرستی کا عفریت بشمول جمہوریت ساری عظیم الشان رنگا رنگی ملی جلی تہذیب ہماری صدیوں قدیم روایات کو اتنا کچھ ڈس چکا ہے کہ یہ دونوں چیزیں زہر آلود ہورہی ہیں لیکن یہ زہر ابھی اس کے رگ و پئے میں نہیں دوڑا ہے۔ بہت دنوں سے بلکہ آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ رواداری اور مجہول فرقہ پرستی میں جنگ ہوتی رہی اور اس جنگ میں کبھی کامیابی تو درکنار کامیابی کے قریب تک بھی فرقہ پرست طاقتیں نہیں پہنچ سکی تھیں۔ اب یہ عالم ہے کہ ان طاقتوں کو دستور میں فلاں لفظ کو ختم کرنے، فلاں لفظ کی جگہ کوئی اور اصطلاح یا لفظ مروج کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دیر سے ہی ملک کی سیکولر پارٹیوں کو ہوش آیا اور آج سارے ملک میں یہی موضوع زیربحث ہے کہ کس طرح سے فرقہ پرست بی جے پی کو لگام دی جاسکتی ہے۔ غیر بی جے پی جماعتوں کے لیڈر فکر مند ہوگئے ہیں کہ ان کی دکانیں بند ہوجائیں گی اور ایک بار ایسا ہوگا تو دوبارہ ان کا اقتدار پر آنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کی باتیں اب دعوے بن گئے ہیں۔ تقریباً تمام پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہئے۔ ایسی کوششیں سبھی کررہے ہیں کیوں کہ انھیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ان کے اتحاد کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اب یہ علیحدہ بحث ہے کہ اتحاد کن خطوط پر ہو۔ اس کے خدوخال کیا ہوں؟ ان کے محاذ کا واحد مقصد کیا ہو؟ جب تک یہ باتیں طے نہیں ہوجاتیں محاذ کی تشکیل بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لئے ہر بڑی اور چھوٹی اپوزیشن پارٹی کو کچھ نہ کچھ ایثار و قربانی، بلیدان سے کام کرنا پڑے گا۔ ابھی پچھلے چند دنوں میں ایسے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ بڑی علاقائی پارٹیاں بشمول ریاست تلنگانہ کی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) ایسے متحدہ محاذ کے لئے کوشش کررہی ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اترپردیش میں جہاں سے ہندوستان کے دل کی دھڑکن شروع ہوتی ہے جو ریاست ملک میں کون حکمراں بنے کس کو اقتدار حاصل ہو یہ اہم اُمور طے کرنے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے وہاں کی دونوں سیاسی علاقائی پارٹیاں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی متحد ہونے کے لئے آمادہ ہیں۔ اترپردیش کی دو لوک سبھا نشستوں پر جہاں ضمنی چناؤ ہوئے (گورکھپور اور پھول پور) ان دونوں پارٹیوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا۔ انتخابی نتائج کے بعد بھی دونوں پارٹیوں کے لیڈروں (اکھلیش یادو سماج وادی پارٹی اور مایاوتی بہوجن سماج) نے اس اتحاد کو برقرار رکھنے اور 2019 ء میں متحدہ طاقت کے ساتھ بی جے پی کو شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے دوسری بڑی ریاست بہار میں جنتادل اور راشٹریہ جنتادل کے دونوں لیڈروں نتیش کمار اور لالو پرساد نے بی جے پی کو ہرایا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ نتیش کمار کی سیاسی بے وفائی نے بعد میں صورتحال بدل دی۔

اب بھی نتیش کمار اگر بی جے پی کے دوست بن کر حکومت کررہے ہیں تو یہ موقع پرستانہ سیاست کا شکار ہے۔ لیکن 2019 ء کے عام چناؤ میں اگر یہاں نتیش کمار کی جگہ کوئی اور لیڈر سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کے لئے آگے آئے تو پھر وہی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور بی جے پی کو شکست ہوسکتی ہے۔ آج کل جو کوششیں اپوزیشن کے اتحاد کے لئے کی جارہی ہیں ان میں مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی اہم رول ادا کررہی ہیں۔ انھوں نے اپنے سہ روزہ دورۂ دہلی کے موقع پر تقریباً تمام اپوزیشن کے لیڈروں سے ملاقات کی اور فرنٹ بنانے کے لئے انتہائی مفید مشورے بھی دیئے۔ اپنے مزاج کے برعکس ممتا بنرجی نے حد درجہ لچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے کانگریس پارٹی سے (جو سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے) بھی مفاہمت کا اشارہ دیا۔ تیسرے اہم لیڈر جن سے ممتا بنرجی نے ملاقات کی اور اتحاد پر زور دیا وہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شردپوار تھے۔ یہ ملاقات بھی مثبت رہی اور دونوں نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے اپوزیشن کے اتحاد پر زور دیا۔ ابھی تک کوئی ٹھوس فارمولہ تو برآمد نہیں ہوا ہے لیکن بات چیت اور ملاقاتوں کی نہج دیکھ کر یہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ سابق صدر کانگریس اور یو پی اے کی سربراہ سونیا گاندھی نے اپوزیشن کے تمام لیڈروں کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا تھا ان سے بات چیت ہوئی تھی اور یہ تقریباً طے ہوچکا ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر 2019 ء کے انتخابات لڑے گی۔ اگر کوئی بڑی یا چھوٹی پارٹی، علاقائی یا قومی پارٹی اس میں کوئی رخنہ اندازی نہ کرے۔ ایک ایسا متحدہ محاذ بننے جارہا ہے جو بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے۔

یہ چناؤ ہر سابقہ چناؤ سے الگ ہے۔ ان میں سیاسی صف بندیاں علیحدہ نوعیت کی ہورہی ہیں۔ 2019 ء کا سال یہ طے کرے گا کہ ہندوستان کی پارلیمانی سیکولر اور جمہوری حیثیت یونہی برقرار رہے گی یا پھر ہندوستان میں فرقہ پرستی کا گھناؤنا اندھیرا چھا جائے گا۔ ابھی کچھ نہیں ہوا تو یہ بحث بھی شروع ہوگئی کہ کیا ملک شمال اور جنوب میں تقسیم ہوجائے گا؟ اس اندیشہ کا اظہار کانگریس کے لیڈر ششی تھرور نے کیا ہے جو اگر صحیح نہیں ہے تو بالکلیہ طور پر غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ جنوبی ہندوستان کی ریاستیں آندھراپردیش، تلنگانہ، کرناٹک، کیرالا اور تمل ناڈو میں بی جے پی اقتدار حاصل کرنے یا کم از کم اپنے علامتی وجود کو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ان ریاستوں میں بی جے پی کا کوئی قابل ذکر وجود نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں ہونے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی اپنی کوشش سے ایسا ماحول پیدا کررہی ہے کہ جنوبی ہند کا ووٹر اس پارٹی سے بدظن اور بیزار ہورہا ہے۔ شمالی ہندوستان میں جتنا اثر و رسوخ فرقہ پرست بی جے پی کو حاصل ہے اس سے یہ پارٹی خود فریبی میں مبتلا ہوگئی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ جنوب کی ریاستیں بھی اس کی فرقہ پرستی کی شکار بن سکتی ہیں۔ ایک طرف کرناٹک میں لنگایت فرقہ کو علیحدہ مذہبی شناخت دینے کی کوشش تو دوسری طرف اڈیشہ اور مدھیہ پردیش میں آدی واسی طبقات کا ’’خود مختاری‘‘ Self Rule کا خطرناک مطالبہ ملک کی سالمیت کے لئے نئے خطرات پیدا کررہا ہے۔ یہ خدشات اور اندیشے غلط سہی لیکن اتنے غیر اہم بھی نہیں ہیں کہ انھیں نظرانداز کردیا جائے۔ ان تمام عوامل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی ملک کی وحدت اور اس کی سالمیت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے اور متحدہ اپوزیشن ہی ملک کو ان خطرات سے بچا سکتی ہے۔