۔ 31اضلاع کے ساتھ تلنگانہ زندہ باد مگر…!

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیر اللہ بیگ
ریاست میں ایک بہتر نظم و نسق کو یقینی بنانے کی غرض سے نئے اضلاع کی تشکیل عمل میں لائی گئی ، اس نئی ریاست کا سب سے اہم مسئلہ روزگار اور عوامی بہبود ہے کیونکہ جیسے جیسے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی اعتبار سے بلدی ، قانونی، سماجی اور روزگار کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔اس ریاست میں سرکاری نظم و نسق بھی ہے پولیس و عدلیہ بھی کام کررہے ہیں مگر عوام کیلئے بہتر نظم و نسق کا خواب پورا نہیں ہوتا۔ حکومت عوام کے لئے دردِ دل رکھتی ہے اور سرکاری اداروں کو درست کرنے رات دن کوشاں ہے۔ نئے اضلاع کے قیام کا مقصد یہی  ہے کہ عوام کو اچھی زندگی جینے کا حق دیا جائے ۔نئے اضلاع، پرانے اضلاع اس کا نظم و نسق کلکٹر کی ذمہ داریوں سے ہوتا ہے۔ مگر ہر ضلع کا کلکٹر اپنے علاقہ کا بے تاج بادشاہ بن کر کام کرے تو پھر عوامی مسائل کا پُرسان حال نہیں ہوتا۔ ہر ریاست میں ضلع نظم و نسق کی اہمیت ہوتی ہے، تاریخی نوعیت سے ہر ضلع میں نظم و نسق کا ایک اہم یونٹ ہوتا ہے لیکن برسوں کے مشاہدہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرکاری کرمچاری اپنی من مانی کرتا ہے۔ ولیج اکاؤنٹ کا رول ہو یا منڈل ریونیو آفیسر اور اہلکار رشوت کے کاروبار کو ہی اپنا فریضہ ملازمت سمجھتے ہیں۔ اس پر سونے پہ سہاگہ کہ اگر کلکٹر بدعنوان مزاج کا ہو تو سارا ضلع اس کلکٹر کی بادشاہت کا شکار ہوتا ہے۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے10اضلاع والے تلنگانہ میں 31اضلاع بنانے کا قدم اٹھاکر ہر ضلع میں کم از کم 3 لاکھ خاندانوں پر مشتمل آبادی ہونے کو یقین بنایا ہے۔ اب موجودہ ضلع کو منقسم کرکے کہیں چار اضلاع بنائے گئے ہیں تو کہیں 2 یا 3 ضلع نکالے گئے ہیں۔ محبوب نگر کو چار اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ محبوب نگر، ونپرتی، ناگرکرنول اور گدوال اور ان اضلاع کی آبادی سب سے کم ہوگئی ہے۔ اب ان اضلاع کے لئے جو سرحدیں کھینچی گئی ہیں اس سے مقامی عوام کسی حد تک مطمئن اور کسی حد تک ناراض ہوں گے وہ ہر گذرتے دنوں کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔ ان 31اضلاع کے بعد مزید اضلاع کے قیام کا مطالبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ ہر ضلع میں بہتر نظم و نسق اور عوام کو ایک بہتر انتظام دینے کی کوشش اچھی علامت ہے۔غربت کا خاتمہ اور دیہی ترقی کے پروگراموں کو موثر طریقہ سے روبہ عمل لانے کے لئے ضلع نظم و نسق کا رول اہمیت رکھتا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کو بروئے کار لانے کے لئے ضلع نظم و نسق کا موثر اور کارکرد ہونا ضروری ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس نیت سے نئے اصلاع بنائے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر ضلع نظم و نسق پر پڑنے والے کام کے بوجھ اور مالیاتی مصارف کو بھی پورا کرنا حکومت کا کام ہے۔ ضلع کلکٹر ہی ہر نفع و نقصان کیلئے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ دیہی ترقی کے پروگرام کو انجام دینا بھی ایک نازک  ذمہ داری ہوتی ہے خاصکر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، لاء اینڈ آرڈر وغیرہ کی مجموعی نگرانی ضلع کلکٹر کے ذمہ ہوتی ہے۔
بعض موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ ایک ضلع کا نظم و نسق ریاستی حکومت کی کارکردگی سے بھی بہتر طریقہ سے چلایا جاتا ہے۔ چھوٹے اضلاع بلاشبہ ایک اچھی حکمرانی کی فراہمی میں بہترین رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس بہترین حکمرانی میں عوام کا عظیم تر رول بھی خاص معنی رکھتا ہے۔ نئے اضلاع بنانے کے بعد یہاں پیداوار، روزگار اور عوامی مفادات کی مد میں خرچ کئے جانے والے فنڈس کا دیانتدارانہ حساب کتاب ضروری ہے۔ اضلاع پر سب سے  زیادہ توجہ مرکوز کرنے والی ٹی آر ایس حکومت نے ریاست کے اصل ضلع حیدرآباد کو ہی نظر انداز کردیا ہے۔ ٹی آر ایس خود کو ایک بہتر نظم و نسق فراہم کرنے والی حکومت کہہ رہی ہے مگر اب تک کی کارکردگی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں جواب کے لئے سوال پوچھنے کا حق کسی کو نہیں سمجھا جاتا۔ تنقید کو ’’ گستاخیوں ‘‘ کے دائرے میں بالوں سے پکڑ کر نکال باہر کردیا جاتا ہے۔ جب کوئی حکومت تنقید کو برداشت نہ کرے اور اپنی برائیوں کی جانب دھیان نہ دے تو ایسی حکومت پورے سماج کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ حکومت کے تعلق سے غلط فہمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس سے جو توقعات کی کچی ڈور لگائی گئی تھی اب وہ اضلاع کی بڑھتی تعداد میں پٹ چکی ہے۔

ماضی میں منڈلس اور اضلاع کی تشکیل کے دوران جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اور ناانصافیوں کی شکایت سامنے آئی تھیں انہیں ملحوظ رکھ کر نئے اضلاع بنائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ہر ضلع کی نئی سرحد سے مقامی افراد کی بڑی تعداد خوش نہیں ہوتی۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ٹی آر ایس حکومت کو تیار رہنا پڑیگا۔ حکومت نے جونیر آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں کو ضلع کلکٹرس اور سپرنٹنڈنٹس پولیس کے طور پر تقررات عمل میں لانے کا قدم اٹھایا ہے۔ ہر تین اضلاع کی کارکردگی پر ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر نظر رکھے گا۔ اس طرح ایک سینئر آئی اپی ایس آفیسر 3یا 4 اضلاع کے لاء اینڈ آڈر کے مسئلہ پر نظر رکھے گا۔ تلنگانہ اس ملک کی 12ویں بڑی ریاست ہے جہاں کی آبادی 3.66کروڑ سے زیادہ ہے۔  زیادہ تر نئے اضلاع ٹی آر ایس قائدین کے دباؤ میں آکر بنائے گئے ہیں۔ طرفداری کی سیاست نے اپنا غلبہ پالیا ہے۔ اب نئے اضلاع کے ناموں پر بھی بحث ہوگی۔ رنگاریڈی ضلع کو شمس آباد ضلع کا نام دیا جارہا ہے۔ وقارآباد کے قدیم اور تاریخی نام کی جگہ اننت گری ضلع کا نام دیا جائے گا۔ یہاں وقارآباد اور شمس آباد کا نام تبدیل کرنے کی اندرونی طور پر سازش ہوچکی ہے۔ مسلم شبیہ سے وابستہ ناموں کو مٹانے سے مسلمان ناراض ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ نئی ریاست میں حکومت نے مسلمانوں کا کس حد تک خیال رکھا ہے۔قیام تلنگانہ سے لیکر اب تک مسلمانوں کے لئے صرف وعدے ہی سنائی دیتے آرہے ہیں۔

حکومت کا ساتھ دینے والی خستہ، بوسیدہ اور برسوں سے مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار رسیدہ قائدین کی پشت پناہی میں ہر حکومت نے مسلمانوں کو انگوٹھا ہی دکھایا ہے۔ حیدرآباد کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کو یہ حکومت ہرگز ناراض نہیں کرسکتی۔ اس عالمی شہرت یافتہ شہر کو اب تک جتنے بھی سیاستدانوں نے نظرانداز کیا ہے ان میں موجودہ چیف منسٹر اور ان کے حامی مسلم قائدین سرفہرست ہیں۔ حیدرآباد کو کھنڈرات کی نذر کرنے کے باوجود سیاسی گیم کیلئے چندر شیکھر راؤ کو ملک کا بہترین چیف منسٹر ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ ملک میں چیف منسٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لیکر سروے رپورٹ تیار کرنے کی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہدایت دی تھی۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چندر شیکھر راؤ کو اس ملک کا سب سے بہترین چیف منسٹر ہونے کے حق میں ووٹ دیئے گئے ہیں۔ اس سروے کا مقصد و مطلب مرکزی حکومت ہی جانتی ہے۔ جہاں تک چندر شیکھر راؤ کو سرفہرست چیف منسٹر بتانے کا سوال ہے یہ وزیر اعظم مودی کی کسی خاص پالیسی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ آندھرا پردیش حکومت کا دعوی ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کو ملک میں چوتھا مقام حاصل ہے۔ دہلیحکومت کے ذریعہ اروند کجریوال کو پانچواں مقام دے رہے ہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ خاموش بھی رہا کریں کیونکہ اس حکومت میں اگر کسی کو بولنا اور منہ کھولنا پڑے تو پرسکون ماحول کو مکدر کرنے والی وجہ ہوگی۔ فربہ جسم پر شیروانی چڑھالے کر ایوان میں حکومت کو کوستے ہوئے اپنی جیبیں بھرلینے والوں نے بلدیہ کو لاپرواہ بناکر شہریوں کو ہمیشہ کے عذاب میں مبتلاء کردیا ہے۔ بارش تھمے ہوئے کئی دن ہوئے سڑکوں اورگلیوں میں بلدیہ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ انہدامی کاررائیوں کا کچھ روز شدید شور مچانے کے بعد سب توپیں اور منہ خاموش ہوگئی ہیں۔ بلدی نظم و نسق کے وزیر تو ملک سے باہر ہیں اور ابھی ابھی حکومت بتکماں پر لاکھوں خرچ کرکے فارم ہاوز پر منتقل ہوچکی ہے۔
kbaig92@gmail.com