یہ چاہت رہے گی سدا

محمد مجیب احمد
سیما اور سمیر نے اپنے پیار کے پودے کی ا پنے دل کی نرم و نازک اور حساس زمین پرآرزوؤں و ارمانوں اور خون جگر سے آبیاری کی تھی ۔اس کی نشو و نما اخلاص و اعتماد سے کی تھی ۔ مہر و وفا اور ایثار و انکساری کی سبک اور لطیف آب و ہوا میں یہ پیار کا پودا خوب پھلا تھا ۔اس کو انہوں نے شک و شبہات اور بدگمانیوں کی بادِ سموم سے محفوظ رکھا تھا ۔اس کی محبت سے لدی پھندی ٹہنوں کو وعدوں اور یادوں سے تر و تازہ رکھا تھا اور اس کے چاہت بھرے گلوں کو دلکش اور سرسبز و شاداب رکھا تھا۔ اس کی مہکی مہکی کلیوں کی خوشبو سے دونوں ہر پل مست و مخمور ہوکر ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے رہتے تھے اور خواہشمند تھے کہ ان کا گلشنِ حیات مہر و الفت کے ماحول میں یوں ہی بہاروں سے آباد اور سلامت رہے۔ !

حسین ونوجوان سیما کا تعلق ہندوستان سے اور اس کے ہم عمر محبوب و عاشق کا پاکستان سے تھا ۔ ان دو محبت کرنے والوں کی ملاقات متحدہ عرب امارات میں ہوئی تھی ۔ جہاں سیما پہلے ایر ہوسٹس تھی بعد میں وہ ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی میں بحیثیت مینجر ملازم ہوگئی تھی ۔ وہیں پر سمیر آبی غذا کا کاروبار کرتا تھا ۔ وہ سیما کے کفیل کا دوست تھا ۔ اسطرح ان کی ملاقاتوں کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا سلسلہ قربت سے محبت میںبدل گیا اور وہ رفتہ رفتہ اجنبی سے آشنا بن گئے تھے۔ دونوں ہی برسر روزگار اور اپنی زندگی کے فیصلہ کے مختار تھے ۔ انہوں نے حتمی ارادہ کرلیا تھا کہ وہ شادی کے بعد زندگی بھر ایک دوسرے کے ہوکررہ جائیں۔!

ہاں … ممی ! میں نے سمیر سے بیاہ کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے ۔ وہ میرا آئیڈیل ہے۔ میری طرح وہ بھی مجھے ٹوٹ کر چاہتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری محبت کامیاب رہے گی اور ہم بیوی اور خاوند بن کر زندگی خوشگوار گزارسکیں گے ۔ مجھے پاپا اور آپ کی اجازت درکار ہے ۔ آپ ایک بار سمیر سے ملنے پر میری پسند کی داد دیں گے۔ باقی سب کچھ یہاں آنے پر بتاؤں گی۔ اچھا اللہ حافظ ۔ ممی …! سیما نے ایک دن ماں کو اپنی پسند سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ بیٹی کی خواہش پر ماں نے شادی سے پہلے دبئی جاکر سمیر سے ملاقات کی اور اسی کی مرصی معلوم کرنے کے بعد شادی کے لئے رضامند ہوگئیں۔

وہ ماہ ڈسمبر کی آخری خوشگوار رات تھی ۔ موسم خنک اور سرد تھا ۔ ہر طرف ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان صاف اور ر وشن تھا ۔ چاند منور اور ستارے جگمگا رہے تھے۔ کائنات میں ہر سو رنگ و نور کا منظر تھا ۔ مدھر چاندنی میں دونوں کا ملاپ جیسے ویران ماحول میں بہار کی آمد کا منتظر تھا۔ جب سمیر اپنی محبوبہ کے وطن ہندوستان پہنچا۔ جہاں ان کی منگنی کا شاندار ا ہتمام تھا ۔ اس خصوص میں رشتہ داروں اور دوستوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ اگلے روز نئے سال کی پہلی شام کو یہ تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔ اس روز سمیر کی سالگرہ واقع تھی ۔ چنانچہ رسم منگنی کے ساتھ اس کی سالگرہ کا انعقاد بھی جوش و خروش سے جاری تھا۔ سمیر اور اس کے ساتھیوں کیلئے مخصوص ہندوستانی پکوانوں کے ساتھ ان کی خاطر و تواضع اور قیام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس سہ پہر کی ساعت دونوں ہی خاندانوں میں ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی جس وقت سمیر غسل کی تیاری کر رہا تھا ۔ اس کے قلب پر شدید حملہ ہوا اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب کافی دیر تک وہ حمام سے باہر نہیں آیا تو سیما نے اس کو آواز دی ۔ سمیر …! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ بولو … سمیر … خاموش کیوں ہو ؟

جواب میں سمیر نے کچھ نہیں کہا تو دروازہ توڑا گیا۔ پھر سب اسے بے جس و حرکت دیکھ کر حیران ہوگئے اور ایک دوسرے کو مدد کیلئے بلانے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر میں کہرام مچ گیا ۔ اوہ … اس پر تو غشی طاری ہے ۔ جلدی سے اسپتال لے جاؤ ۔ سمیر … ! کچھ تو بولو … مجھے دیکھو پلیز … سیما پکار اٹھی۔
سمیر کو غنودگی کی حالت میں فوراً قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ۔پھر وہاں سے ناامید ہوکر اسے دوسرے بڑے ہسپتال لے جایا گیا تاکہ اس کی جان بچائی جاسکے لیکن ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کو بچایا نہ جاسکا ۔ اس المناک حادثہ سے سیما کے خاندان میں رنج و الم کا عالم چھا گیا تھا ۔ جہاں خوشی کی شہنائیاں بج رہی تھیں اب وہاں ماتم کی گونج سنائی دے رہی تھیں۔ ا دھر پاکستان میں مقیم سمیر کے والدین کے علاوہ دبئی میں قیام پذیر اس کے عزیز و اقارب کو بھی اس سانحہ سے مطلع کردیا گیا تھا ۔ دونوں خاندان ایک دوسرے سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے شدید غم و صدمہ سے دوچار تھے ۔ سیما کا آہ و زاری سے برا حال ہوگیا تھا ۔ سمیر کی زندگی کی ڈور ٹوٹنے پراس کی خواہشوں کی لڑی کا سلسلہ بھی بکھر گیا تھا ۔ دونوں کے ایک ساتھ بیتے ہوئے پر مسرت اور خوشگوار لمحات اب یاس و حسرت میں تبدیل ہوگئے تھے۔
دوسرے دن سمیر کی میت واگھا سرحد روانہ کردی گئی، جہاں اس کے بھائی نے اسے حاصل کیا ۔ اس کے بعد شہر کراچی میں اس کی تدفین عمل میں آئی ۔ آخری رسومات میں سیما شرکت سے قاصر رہی کیونکہ ، اسے پاکستان کا ویزا حاصل نہ ہوسکا تھا  مگر کچھ ایام کے بعد اس نے سمیر کے غمزدہ والدین و اہل خانہ سے ملاقات کی پھر وہ اپنے محبوب کی محبتوں اور یادوں کو سینہ سے لگائے مجبوراً  دبئی چلی گئی ۔ اپنے ہونے والے شریک حیات کی درد انگیز موت نے اس پرسکتہ طاری کردیا تھا اور وہ دکھ اور رنج سے نڈھال ہوگئی تھی ۔ سمیر کو وہ کسی طور سے بھلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی جدائی سیما کیلئے جیسے پرچھائی بن گئی تھی ۔ سمیر کی محبت اور یاد نے اس کے دل پر انمٹ نقش ثبت کردیئے تھے ۔ جسے ہزار چاہنے پر بھی مٹایا نہیں جاسکتا تھا ۔ اس کے بغیر وہ لرز کر رہ گئی تھی ۔ ہر وقت اس کی یاد میں وہ کھوئی کھوئی رہنے لگی تھی ۔ جب بھی اس کے بارے میں سوچتی تو سیما کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے تھے ۔ سمیر کی پر کشش شخصیت سے وہ پہلی دفعہ ہی ایسی متاثر ہوئی کہ بس اسکی ہی ہوکر رہ گئی تھی ۔ جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو انہیں ایسا لگا تھا کہ جیسے وہ سات جنموں سے ملتے رہیں ہوں اور وہ ایک دوجے کی آنکھوں میں چاہت کے دیئے جلائے اٹھے تھے پھر وہ ایک جان دو قالب بن کر آپس میں سما گئے تھے ۔

سمیر کے ساتھ بیتی ہوئی گھڑیاں سیما کیلئے سرمایہ حیات بن کر رہ گئی تھیں ۔ وہ اپنے آپ کو خوش بخت خیال کرنے لگی تھی جو اسے مختصر مدت کیلئے ہی سہی سمیر کا ساتھ ملا تھا ۔ اس کی ایک دید کی تمنا کیلئے وہ مضطرب رہا کرتی تھی ۔ ارے وہ بچھڑ گیا تو اسے کسی طرح سے قرار نہیں تھا ۔ وہ سرشام اس کی فرقت کے چراغ روشن کر کے شب بیداری میں سحر کردیتی۔ اس کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح رم جھم برستی ہوئی خلاؤں میں سمیر کو تلاش کرتی رہتیں اور وہ خود کو غم و اندوہ کی امڈتی سیاہ گھٹاؤں میں چھپائے آہیں بھرتے اور سسکیاں لینے لگتیں۔ اس کے آگے سمیر کے کہے ہوئے وہ جملے باز گشت بن کر گونجنے لگتے۔ ’’سیما…! زندگی میں تو سبھی پیار کرتے ہیں اور میں تو مرکر بھی تمہیں چاہوں گا ‘‘۔ سمیر اور سیما کی محبت چڑھتے ہوئے چودھویں کے چاند کی طرح ابھری تھی لیکن جلد ہی وہ چند راتوں کے بعد چاند گہن بن کر تاریکی میں ڈوب گئی ۔ کاش…! دونوں کا ساتھ ہمیشہ باقی رہتا ۔ موت کی تیز آندھی  ایک محبوب کو اپنی محبوبہ سے چھین کر اس کی زندگی کے پر بہار چمن کو اُجاڑ کر دائمی طور پر ویران کر گئی تھی۔ سمیر کی محبت سیما کے لئے ٹھنڈری چھاؤں کے مثل تھی اور اس کا ساتھ سکون بخش سایہ کی طرح تھا ۔ وہ سیما کی سنگلاخ چٹان جیسی زندگی میں محبت کا میٹھا چشمہ ثابت ہوا تھا جو اس کی پیاسی روح کو سیراب کرگیا تھا ۔ سمیر اپنے پیچھے خوشگوار یادیں اور خوش آئند تصورات کی روشنیاں بکھیر کر چلا گیاتھا ۔ ناگہانی موت کے زوردار جھونکے نے اسے ادھ کھلے غنچے کی مانند چمن سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا ۔

سمیر اور سیما کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی حسین اور خوشگوار گزارے ۔ ہر سمت شادمانیاں رقصاں ہوں اور کیف و سرور کا ماحول چھایا رہے ۔ ان کے پیار کا دلکش امتزاج پائیدار رہے اور حیات کا ایک لحظہ راحت و مسرت سے مہکتا رہے ۔ سیما کو اس کے پیار کے ساتھ اعتماد و تحفظ بھی ملا تھا جس نے اسے زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیاتھا ۔ اب اس کے تصور ہی سے اس کی پلکیں پھڑکنے لگتی ہیں اور دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔ سمیر کی محبت پاش شخصیت کی سنگت پاکر سیما سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زندگی کے حسین و نازک موڑ پر وہ یوں ہی اچانک ساتھ چھوڑ جائے گا اور اس کی خواہشوں اور خوشیوں سے بھرا دامن تار تار ہوجائے گا ۔ سمیر کو دنیا سے گزرے ہوئے کئی ماہ ہوچکے تھے ۔ مگر سیما کے دل میں اس کی محبت اسی شدت سے موجزن تھی ۔ اس کو پانے کے بعد کھو دینے کا مرحلہ بڑا ہی دل سوز اور جگر پاش تھا ۔ اس کے بچھڑنے کا کرب بڑا ہی جاں سوز تھا ۔ اس کے انتظار کے لئے وہ بے تاب رہا کرتی تھی اور دل وصل کیلئے تڑپتا تھا ۔ شاید یہ بے تابی اور تڑپ صرف اس لئے تھی کہ ان کے درمیان ایک ہی رشتہ تھا ۔ سچی چاہت کا ۔ وہ آپس میں یہی کہتے تھے کہ ’’ہمارے ملک کی سرحدیں جدا ہوگئی ہیں لیکن ہماری محبت اٹوٹ ہے جس کے درمیان سرحدوں کی لکیریں کبھی حائل نہیں ہوسکتیں‘‘۔ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے تعلقات بھی ان کی محبت کی طرح مستحکم اور مضبوط ہوں اور آپس میں کوئی رنجش اور کشیدگی باقی نہ رہے اور ہمیشہ مل جل کر رہیں۔
مجھے عشق ہے تجھ ہی سے میری جان زندگی
ترے پاس میرا دل ہے میرے پیار کی نشانی