یہ قوم دودھ کی جلی ہے ، چھانچ بھی …

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کردینے اور تلنگانہ میں 17ستمبر کو لبریشن ڈے منانے کی ضد کرنے والوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ بڑے جانوروں کی قربانی کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیئے۔ مگر قربانی کے جانوروں کی فروخت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندو بیوپاریوں،ٹھیکہ داروں اور منافع خوروں کا ہی ہے۔ مسلمان خریدار اور درمیانی بیوپاری تو خسارہ کا شکار بنتا ہے۔ جن ریاستوں میں گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کی جارہی ہے تو اس کے اثرات تلنگانہ پر بھی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ظلم و زیادتی کے اس نظام میں اقتدار کا مطلب من مانی فیصلے کرنا اور پولیس کی طاقت کو ایک فرقہ کی خواہشات کے تابع بنانے کا چلن عام ہوجاتا ہے تو پھر اس نظام کو بدلنے کا نسخہ تلاش کرنے کے لئے مسلمانوں کو اپنے درمیان سے ہی کسی طاقتور شیخ الاسلام کو پیدا کرنے یا تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس ظلم و زیادتی والے سیاسی نظام کی وجہ سے ہی آج مسلم قوم پر ایسی قیادت مسلط ہوگئی ہے جو ہر جگہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بے شرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ علم، تجربہ، قابلیت، مہارت، لیاقت اور قومی خدمات یا مسلم خدمات کا کوئی ریکارڈ نہ رکھتے ہوئے بھی جب نام نہاد مسلم قیادت اپنے اطراف چھپے ہوئے بدمعاش، کم عقل، ان پڑھ، ناتجربہ کار مردم گذاروں کو جمع کرکے مسلم قوم کا بھاری نقصان کررہی ہے۔ تلنگانہ ریاست کے مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کی فکر نہ سہی اس نئی ریاست کے قیام سے قبل تلنگانہ کی مخالفت کرنے والوں نے حکمران طبقات سے ساجھیداری کرکے 12فیصد مسلم تحفظات کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کرلی ہے تو ایک معنیٰ میں وہ اپنے ووٹروں سے غداری کررہی ہے۔

مسلم قوم دودھ کی جلی ہے تو چھانچ بھی پھونک پھونک کر پیئے گی۔ 12فیصد تحفظات کے لئے مسلمانوں کو سڑکوں پر نکل آنے کی نوبت آجائے تو اس کے لئے ہردم تیار رہنا ہوگا لیکن حکومت وقت سے ہاتھ ملانے والوں کو مسلم قوم کے لئے تحفظات کی فکر نہیں ہے اس لئے وہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں پر ڈالے گئے اپنے قفلوں کو کھولنے نہیں دے گی۔ مسلم طبقہ کے ذہنوں پر لگے قفل اس وقت کھولنے میں کامیابی ہوگی جب ان کی قیادت کے منصوبوں کو آشکار کیا جائے اور فرقہ پرستوں کے ساتھ ان کی ساجھیداری کے راز کو افشاء کیا جائے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنے دورہ چین سے واپس ہوچکے ہیں تو ان تک 12فیصد تحفظات کے لئے شروع کردہ مسلم تحریک کی بات پہنچائی گئی ہوگی۔ لیکن ہر حکمران اپنی تسلیم شدہ اور حکمرانی فطرت کا اسیر ہوتا ہے اس لئے اس اسیر سے نکالنے کے لئے سمجھدار ذہن ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم مفادات کیا ہیں اس کے فوائد سے آنے والی نسلیں کس طرح مستفید ہوسکیں گی یہ غور کرتے ہوئے ہی دشمن کو پہچان کر اس کی سازشوں کو ناکام بنانا چاہیئے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بظاہر مسلم دوست چیف منسٹر نظر آتے ہیں مگر ان کے عوامل نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں جب کبھی سیاستداں پر الزام لگتا ہے تو کہنہ مشق صحافی تحقیقات کرتے ہیں اور ان میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تحقیقاتی صحافت کی روایت پر سیاستدانوں کی مرضی غالب آگئی ہے۔ اس لئے مسلم قوم کے لئے مختلف خیال پیدا کئے جاتے رہے ہیں۔ ہماری ریاست میں مسلم عوام کی عدالت دنیا کی واحد عدالت ہے جس نے ہمیشہ خود اپنے خلاف فیصلے کئے ہیں۔ تلنگانہ بنانے کے بعد ووٹ بھی دیا تو اپنے ہی خلاف فیصلے کا ووٹ دیا جس کے نتیجہ میں آج ان کی منتخب کردہ حکومت اور لیڈران وعدے کرکے بھول گئے۔ یہ قوم اپنے دھوکہ بازوں کو اپنے کندھوں پر بیٹھاکر جلسہ گاہ کے شہ نشین تک لے جاکر نعرے لگاتی ہے۔ ایسی قوم جو اتنی سادہ لوح ہے کہ خود اپنے گلے میں پھندہ ڈالتی ہے، خود ہی اپنا کلیجہ منہ کو لاتی ہے اور اپنی لاش بھی خود اُتارتی ہے،

غسل بھی خود دیتی ہے، اس کی نماز جنازہ بھی خود پڑھتی ہے اور اسے دفن بھی خود کرتی آرہی ہے، اور پھر ماتم بھی خود کرتی ہے۔ اس لئے ان کے لیڈران بڑی خوبصورتی سے ان کی پریشانیوں کو بیان کرکے ان کو مزید بے وقوف بناتے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے اپنی ریاست اور اپنے شہر کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور تحفظات کی فکر نہیں ہے مگر لالو پرساد یادو کی ریاست بہار میں رخنہ ڈالنے پہونچ گئے ہیں۔ جس ریاست میں کل تک ’’ جب تک سموسے میں آلو رہے گا لالو تیرا نام رہے گا ‘‘ کا نعرہ تھا وہاں آلو اور لالو کے لالے پڑ گئے ہیں اور فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے وہ چل پڑے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں یہ عقیدہ راسخ ہے کہ نیک لوگوں کو عموماً سچ خواب آتے ہیں تاہم ان نیک لوگوں کے اس عقیدے کا غلط استعمال بھی بڑی شدومد سے ہورہا ہے تو پھر بہار کے اسمبلی نتائج ہی بتائیں گے کس نے کس کو کیا دیا ہے۔ فی الحال چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے چین سے آکر ریاست میں سرمایہ کاری کے لئے کتنی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور ریاست میں کتنے کروڑ کی سرمایہ کاری ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی ظاہر کرے گا۔ مگر اس وقت تلنگانہ کی مالی حالت کے بارے میں جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ حق معلومات قانون RTI کے ذریعہ تلنگانہ ریاست کے سرکاری خزانہ کی کیفیت معلوم کی گئی تو پتہ چلا کہ ریاست کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت نے ابتدائی 15ماہ کی حکمرانی میں 51,000 کروڑ روپئے کے قرض کا بوجھ ہے اور یہ حکومت عالمی بینک سے مزید 10ہزار کروڑ روپئے کا قرض حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ اس حکومت کو اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل اور پالیسیوں کو بروئے کار لانے کیلئے مزید قرضے حاصل کرنے پڑیں گے۔ خیر اس ریاست کے عوام ایک عرصہ سے اس بات کے عادی ہوچکے ہیں کہ ان کی حکومتیں انہیں کس کس جگہ بے وقوف بناکر حکومت کرتی ہے۔ بدل رہی ہے سیاہ و سفید کی تصویر۔ یہ کون خواب سے بیدار ہونے والا ہے کے مصداق اگر عوام خواب سے بیدار ہوں تو انہیں حکمراں پارٹی ہرگز بے وقوف نہیں بناسکے گی۔ بلاشبہ تلنگانہ کے تمام سیاستداں مقبولیت میں کے سی آر کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے لیکن یہ بھرم زیادہ دن تک نہیں چلے گا۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور دیگر پارٹیاں ان دنوں سیاسی دباؤ کا شکار ہوئی ہیں تو اس کی اصل وجہ عوام میں شعور بیداری مہم کی کامیابی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے لئے تحفظات کے حصول کے منصوبہ کا ایک بلیو پرنٹ تیار کرلینا چاہیئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو یا نہ ہو مگر تحفظات کے حصول کیلئے جدوجہد تو جاری رہنی چاہیئے۔’’ عزم یہ نہیں کہ منزل پر پہنچ کر دم لیں گے ، عزم تو یہ ہے کہ رُکیں گے نہیں۔ منزل کا کیا ہے ؟؟؟ یہاں ملے یا وہاں … ‘‘

مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا شور مچانے والی حکومت اور اس کی سرکاری مشنری نے اس حقیقت کو پوشیدہ رکھا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ گئی ہے۔ 16ویں لوک سبھا میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے صرف 23 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ 543رکنی لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 4.2فیصد ہے۔ اگر مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ارکان پارلیمنٹ کا تقابل کیا جائے تو لوک سبھا میں 14.2 فیصد نمائندگی ہونی چاہیئے تھی۔ یعنی کم از کم 77مسلم ارکان پارلیمنٹ منتخب ہونا چاہیئے لیکن صرف 23 مسلم ارکان سارے ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سیاسی تحفظات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کی نیت آشکار ہوتی ہے۔ سال 2014 لوک سبھا انتخابات میں ہندوستان کی 29ریاستوں میں سے صرف 7ریاستوں سے ہی مسلم ارکان منتخب ہوئے ہیں ان میں مغربی بنگال 8، بہار 4، جموں و کشمیر 3، کیرالا 3، آسام 2، ٹاملناڈو ایک اور تلنگانہ سے صرف ایک رکن پارلیمنٹ کے مابقی 22ریاستوں میں کوئی بھی مسلم لیڈر منتخب نہیں ہوا ہے، اس طرح ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی صفر نمائندگی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوک سبھا میں سیکولر پارٹیوں کی تعداد زیادہ ہے جملہ 37سیاسی پارٹیوں میں صرف  11 سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے، جو پارٹیاں خود کو سیکولر قرار دیتی ہیں وہ سیاسی میدان میں مسلمانوں کو ترجیح دینے سے گریز کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے اندر بھی قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ دستور ہند کے مطابق اس ملک کے ہر شہری کو ووٹ دینے اور اقتدار کیلئے جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ لیکن جب سے فرقہ پرستوں نے سیاسی پارٹیاں قائم کرلی ہیں دیگر سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے تعلق سے اپنا نظریہ اور پالیسی تبدیل کرلی ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں نے تو مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ ایسے میں مسلم تحفظات اور دیگر سیاسی سرکاری فوائد کے لئے مسلمانوں نے جدوجہد نہیں کی، اس کی اصل وجہ دہشت گردی اور فرقہ پرستی کی آڑ میں مسلمانوں کو سماج کے اصل دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے سرکاری مشنری کا بیجا استعمال کیا گیا، تعلیمی شعبہ ہو یا تجارتی شعبوں میں بھی مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلا گیا۔ نتیجہ میں مسلمانوں کی سوچ میں بھی پستی لائی گئی۔ جن طاقتوں نے مخالف مسلم پالیسی بنائی انہی کو اقتدار تک لے جانے میں مدد کی گئی اور یہ مدد مسلمانوں کے ہی چند مفاد پرست مسلم قائدین کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔ یہ مسلم قائدین اپنی سازشوں کی پردہ پوشی کرنے کیلئے اپنے مسلم ووٹرس کے سامنے ایسی دلیلیں اور منطقیں پیش کرتے ہیں کہ بیچارے مسلم رائے دہندے انتخابات کے وقت انہیں ووٹ دے کر یہ سوچتے ہیں کہ انہیں ووٹ نہ دیں تو کس کو ووٹ دیں۔ لہذا برسوں سے مسلم رائے دہندہ غلطیاں کرتا آرہا ہے اور خود کو پسماندگی کے دلدل میں دھنساتا جارہا ہے۔ اس لئے ’’ہمیشہ سچے لوگوں سے دوستی رکھو کیونکہ یہ اچھے دنوں میں سرمایہ اور بُرے دنوں میں محافظ ہوتے ہیں‘‘۔
kbaig92@gmail.com