یہ سات دن ہم پاکستانیوں کے لئے کافی اہم تھے

کتنا قریب ۔ کتنا دور

ہمارے وزیر اعظم کی سالگرہ 25دسمبر کو تھی۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ ہمارے عیسائی بھائی کئی صدیوں سے اسی دن کرسمس منا رہے ہیں پھر پاکستان کے بانی قائداعظم بھی اسی اہم تاریخ کو پیدا ہوئے۔ لیکن ہمارے لئے تو جو موجود ہے اس کی سالگرہ اہمیت رکھتی ہے۔خوب کیک کٹے اور اس کے ٹکڑے بھی خوب اڑے،مسلم لیگ والے ہوں پی پی والے یا تحریک انصاف کے کارکن اس معاملے میں ایک جیسے ہی ہیں۔ بریانی ہو، کیک یا مرغی، سب ٹوٹ پڑتے ہیں اور پلک جھپکنے میں کونڈے خالی کردیتے ہیں۔ ٹی وی چینل بھی ایسی خبریں اور ایسے مناظر بڑے مزے سے دکھاتے ہیں۔ کیوں کہ اکثر ان کے رپورٹر کیمرا مین بھوکے رہ جاتے ہیں آپ کے ہاں پتہ نہیںکیا صورت حال رہتی ہے۔

کرسمس تو گزر گیا میں آپ کو مبارک باد نہ دے سکا ،نئے سال کی مبارک باد ابھی سے دے دوں۔ ہمیں دو بار نیا سال انڈیا میں منانے کا موقع ملا بہت لطف آیا۔ایک بار دہلی جم خانے میں، ایک دفعہ حیدرآباد دکن کے نظام کلب میں۔ اس بار ہم اپنے کراچی میں ہی منائیں گے یہ نہ سمجھئے گا کہ ہمارے ہاں نیو ایر نائٹ نہیں منائی جاتی پاکستانی اتنے بھی بے ذوق نہیں ہیں۔ ہم پابندیوں میں بھی جگاڑ لگا لیتے ہیں یعنی راستہ نکال لیتے ہیں۔ نئے سال کی پہلی رات کے ساتھ جتنے بھی لوازمات ہیں، رنگ رلیوں رنگینیوں کے لئے جو بھی چاہئے وہ بھگوان کی کرپا سے سب میسر آجاتا ہے اور کسی چیز کی تیاری پہلے سے کریں یا نہیں اس کی پلاننگ کئی مہینے پہلے سے شروع کر دی جاتی ہے۔ اگلے کالم میں بات ہوگی۔

پاک ہند تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے لئے ان دنوں کی سب سے بڑی خبر واگھا بارڈر پر ہونے والی ملاقات تھی جو انڈین اور پاکستانی جنرلوں کے درمیان ہوئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں یہ ملاقات بڑی دیر کے بعد آئی ہے۔ چودہ سال بعد۔ بن باس بھی 14 سال کا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹرجنرلز ملٹری آپریشنز کارگل معرکے کے بعد جولائی 1999میں دہلی میں ملے تھے۔ انہیں پیار سے ڈی جی ایم او کہتے ہیں۔ ویسے انہیں منگل کے منگل ٹیلی فون پر بات کرنے کی ہدایت ہے۔ انہیں ہاٹ لائن کی سہولت حاصل ہے۔ یہ آسانی دونوں دیشوں کے وزرائے اعظم کو بھی 1989سے حاصل ہے جب راجیو بے نظیر کاراج تھا پھر نواز شریف چندر شیکھر جی اور 1997میں دوبارہ نوازشریف کو اندر کمار گجرال جی سے بات اسی ہاٹ لائن پر کرنے کا موقع ملتا رہا۔ نواز شریف اور واجپائی نے بھی اسے استعمال کیا۔ پاکستان ہندوستان میں اور بھی کئی باتیں دنیا سے مختلف ہیں۔ وہاں ان دونون کے درمیان سرحدوں کے اقسام بھی دوسرے ملکوں سے الگ ہیں۔

یہ چار اقسام ہیں ۔ پہلی ہے اندرا کو لی پاس قراقرم پاس اور گلگت بلتستان کے مابین line of actual contact ۔دوسری ہے line of control ہمارے اور آپ کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں تھا، کوچک تک ۔اس میٹنگ میں زیادہ بات اسی پر ہوئی۔ تیسری کہلاتی ہے working boundary یہ تھاکو چک سے شروع ہوتی ہے، آبیال ڈوگرا تک۔ ہمارے سیالکوٹ، شکر گڑھ اور جموں کے درمیان ۔چوتھا ہے international borderجو ساری دنیا میں ملکوں کے مابین ہوتا ہے۔ یہ شمال میں آبیال ڈوگرا سے چلتا ہے۔ جنوب میں سرکریک جہاں سے بحر عرب بھی اسے چھوتا ہے۔ ایسے مختلف بارڈرز والے دو ملکوں کے جنرل اگر آپس میں ہنستے کھیلتے ملیں اورمغز سری، پائے قیمہ، مٹر لاہوری، مچھلی کھائیں تو دونوں پار غریب مصیبت زدہ شہریوں کے چہروں پر بھی کچھ دیر کو مسکراہٹ بکھر جائے تو کیا برا ہے۔ ہماری طرف سے میجر جنرل عامر ریاض تھے آپ کے ہاں سے لفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ۔ رینک میں بھی سینئر اور عمر میں بھی۔ ہم جواں سال ڈی جی ایم او رکھتے ہیں۔ آپ سفید بالوں والے۔ اپنی اپنی پالیسی ہے، لیکن دونوں نے ایک ہی بیان جاری کیا جو بہت خوشی کی بات ہے۔ عام شہریوں کے لئے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کرنے والے لوگوں کو دونوںطرف کے سرحدی محافظ فوری طور پر ایک دوسرے کو اطلاع دینگے اور انہیں جلد ہی اپنے گھر بھیج دیا جائیگا۔ پاکستان کے سیاسی اور فوجی دونوں حلقے ملاقات کو نتیجہ خیز اور موئثر قرار دے رہے ہیں۔ آپ کے ہاں سے بھی اطلاعات ایسی ہی ہیں۔ اس میٹنگ کا اصولی فیصلہ تو وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیراعظم نواز شریف کی نیویارک کی ملاقات میںکیا گیا تھا۔ لیکن دعوت پاکستان آرمی کی طرف سے دی گئی۔ جسے اب نئے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میسر آئی ہے۔ جنرل راحیل ایک ماہ میں فوج کے اہم عہدوں پر کافی نئی تقرریاں کر چکے ہیں جنہیں عام طور پر سراہا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت بنانے میں بھی کافی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ اروند کیجرال ایک رول ماڈل کا درجہ اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے سیاسی سفر پر کالم بھی لکھے جا رہے ہیں اور فیچر بھی چھپے ہیں۔ آپ میں سے کسی کی ان سے کہیں ملاقات ہو تو پاکستانیوں کی نیک خواہشات ان تک پہنچا دیں۔
باقی سب خیریت ہے ،عمران خان احتجاج کے موڈ میں ہیں۔ لیکن ان کے اپنے صوبے خیبر پختون خواہ میں ان کی پارٹی کی کارکردگی ایسی مثالی نہیں رہی ہے کہ دوسرے صوبوں والے آنکھیں بند کر کے ان کے احتجاج کا حصہ بن جائیں۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800