یہ رہنما ہیں کہ جادو گروں کی ہے ٹولی

انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل نظرانداز
رشید الدین
2014 ء کے عام انتخابات کی دستک نے تمام جماعتوں کو اپنی اپنی صفیں درست کرنے میں مصروف کردیا ہے۔ یوں تو عام انتخابات کیلئے ابھی چار ماہ باقی ہیں لیکن کوئی بھی اس بارے میں یقین سے کہنے کے موقف میں نہیں کہ چناؤ مقررہ وقت پر ہوں گے ۔ ہر پارٹی اپنے اپنے کارکنوں کو عام انتخابات کیلئے تیار رہنے کی صلاح دے رہی ہے۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی نتائج نے قومی سطح پر انتخابی سرگرمیوں کو ہوا دیدی ہے۔ چار ریاستوں کے نتائج نے ایک طرف بی جے پی کے حوصلوں کو بلند کردیا تو دوسری طرف کانگریس ناکامی اور شکست سے ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالیہ نتائج سے 2014 ء کی امکانی نئی صف بندیوں کا بھی اشارہ مل رہا ہے ۔ شکست سے مایوس اور دلبرداشتہ کانگریس نے عوام میں اپنی ساکھ بچانے کیلئے لوک پال بل کا سہارا لیا جس کیلئے انا ہزارے کی صورت میں پارٹی کو ایک ہمدرد مل گیا ہے ۔ لوک پال بل کی منظوری کے سلسلہ میں کانگریس نے جس سرگرمی کا مظاہرہ کیا، یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جنگی خطوط پر بل کی منظوری عمل میں لائی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ چار ریاستوں میں عوامی ناراضگی کم کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔ بل کی منظوری کے مرحلہ تک جو بھی ڈرامائی تبدیلیاں ہوئیں اس کے پس پردہ چار ریاستوں کی شکست کا اثر صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا ۔

دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد انا ہزارے کے برت کا اعلان اور پھر راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں متواتر لوک پال بل کی منظوری سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس فلم کا اسکرپٹ رائٹر کانگریس پارٹی میں موجود ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہلی اور راجستھان میں حکومتوں کے زوال اور مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں مسلسل تیسری بار شکست کے بعد کانگریس کیڈر کے حوصلے پست ہوچکے تھے اور پارٹی کو ملک بھر میں اس تاثر کی بھی نفی کرنا تھا کہ کانگریس عام آدمی سے دور ہوچکی ہے ۔ کانگریس کی حکمت عملی تیار کرنے والوں میں لوک پال کی منظوری کو آگے کردیا تاکہ ایک ساتھ فیس سیونگ اور Damage کنٹرول ہوسکے۔ چونکہ لوک پال بل کی کامیابی سے کانگریس کی ساکھ کو بچانا یقینی نہیں تھا اسی لئے لوک پال تحریک چلانے والے انا ہزارے کو بھی اس کھیل میں شامل کرلیا گیا ۔ لوک پال بل کی منظوری کے ذریعہ کانگریس نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ ایک طرف عوامی ہمدردی تو دوسری طرف انا ہزارے جیسا ہمدرد اسے مل گیا۔ تیسرے یہ کہ بل کی منظوری کا سہرا پارٹی کے یوراج راہول گاندھی کے سر باندھ کر انہیں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ 40 برسوں میں لوک پال بل کی منظوری کیلئے 8 مرتبہ کوشش کی گئی لیکن حکومتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس پارٹی جو کہ بل کی منظوری کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کر رہی ہے ، اگر واقعی وہ سنجیدہ ہوتی تو تین سال قبل ہی بل کو منظوری دی جاتی، جب انا ہزارے نے عوامی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ انا ہزارے کے بارے میں راہول گاندھی ، کپل سبل اور کانگریس کے دیگر قائدین نے کیا کچھ نہیں کہا تھا

لیکن آج انہی قائدین کی زبانی انا کے حق میں مداح سرا ہیں۔ راہول گاندھی ، سلمان خورشید اور کپل سبل نے کہا تھا کہ انا ہزارے پارلیمنٹ کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک قائد نے تو مرن برت کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا ، اب تندرستی اور بہتر صحت کیلئے برت مفید اور کارآمد ہے لیکن آج یہی قائدین انا ہزارے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ انا ہزارے نے سابق میں راہول گاندھی کو ناتجربہ کار اور وزیراعظم کے عہدہ کیلئے ناموزوں قرار دیا تھا لیکن اب اچانک انہیں راہول میں سیاسی تجربہ دکھائی دینے لگا ہے۔ آخر اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے ؟ انا ہزارے کیوں راہول گاندھی کی ستائش پر مجبور ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کانگریس اور انا ہزارے دونوں کی اپنی اپنی مجبوری ہے اور دلی کے اسمبلی نتائج سے اس کا راست تعلق ہے۔ کانگریس اور انا ہز ارے دونوں کو سہارے کی ضرورت تھی۔ دلی کے چناؤ میں اپنے شاگرد اروند کجریوال کے شاندار مظاہرے کو انا ہضم نہیں کر پائے تو دوسری طرف کانگریس نے انا ہزارے کو اپنے حق میں کرنے لوک پال بل کی منظوری کی چال چلی کیونکہ اس کے پیش نظر 2014 ء کے عام چناؤ ہیں۔ بل کے حق میں انا کی تائید حاصل کرنے کانگریس قائدین کی خفیہ ملاقاتیں اور راہول گاندھی کا مکتوب یہ تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اصل نشانہ عام آدمی پارٹی ہے کیونکہ وہ 2014 ء عام چناؤ تک موجودہ مستحکم موقف میں نہ رہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کجریوال کا راستہ الگ ہوگا اور انا ہزارے کانگریس کے ساتھ ہوجائیں گے ۔ اروند کجریوال کا عملی سیاست میں حصہ لینا انا ہزارے کو پسند نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کجریوال سے لاتعلقی کا اظہار کردیا لیکن دہلی کی رائے دہندوں نے انا ہزارے کو منہ توڑ جواب دیا اور ان کی مخالفت بے اثر ہوگئی ۔ اپنی مقبولیت میں کمی محسوس کرتے ہوئے انا ہزارے نے کانگریس سے مل کر ملک بھر میں لوک پال کی تحریک شروع کی، چونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو دن میں بل کو منظوری دیدی گئی ۔ جہاں تک ملک میں کرپشن کے خاتمہ کا سوال ہے ، اس سلسلہ میں کئی قوانین اور ادارے پہلے ہی سے موجود ہیں۔ لوک پال صرف ایک نئے ادارہ کا اضافہ ہوگا۔ کرپشن سماج کے ہر شعبہ میں کچھ اس طرح سرایت کرچکا ہے کہ اس کا خاتمہ صرف کسی ادارہ کے قیام سے ممکن نہیں۔ اگر موجودہ قوانین پر عمل آوری میں حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتیں تو کرپشن ناسور کی شکل اختیار نہ کرتا۔ قومی سطح پر سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، ریاستی سطح پر لوک آیوکت اینٹی کرپشن بیورو ، ویجلنس انفورسٹمنٹ کے علاوہ اب تو عدالتیں بھی کسی شکایت یا اپنے طور پر تحقیقات کی ہدایت دے رہی ہیں۔ ایسے میں لوک پال کی تشکیل سے کسی کرشمہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ لوک پال اور اس کے ارکان کا تقرر حکومت میں شامل افراد ہی کریں گے۔ لہذا اس کی کارکردگی میں حکومت کی عدم مداخلت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں اگرچہ عوامی مسائل پر مباحث نہیں ہوسکے ۔ تاہم حکومت نے سیاسی مقصد براری کیلئے اسے لوک پال کی منظوری تک محدود کردیا ۔ اگر چار ریاستوں کے نتائج کانگریس کے حق میں ہوتے تو شاید مانسون سیشن میں بھی لوک پال بل پیش نہ ہوتا۔ حکومت نے دو دن قبل ہی پارلیمنٹ کی کارروائی کو ملتوی کرتے ہوئے عوامی مسائل سے فرار اختیار کی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس پر حالیہ نتائج کے اثرات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت نے انسداد ، فرقہ وارانہ تشدد بل کی منظوری کا بھی اعلان کیا ہے لیکن یہ بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا جبکہ کابینی اجلاس میں اسے منظوری دی گئی۔ 46 برس میں جو بل پاس نہ ہوسکا ، وہ 46 منٹ میں لوک سبھا میں پاس کرلیا گیا ۔ یہ ووٹ بینک کی سیاست اور اسمبلی نتائج کا اثر نہیں تو اور کیا ہے۔ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کو آئندہ سیشن میں پیش کرنے کی بات کی جارہی ہے، یعنی انتخابات سے عین قبل کانگریس اقلیتیوں کی تائید کیلئے اس بل کا استعمال کرے گی ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایوان میں موجود کسی بھی سیکولر پارٹی نے انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کی منظوری پر اصرار نہیں کیا۔ ملک میں کرپشن سے زیادہ فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ کرپشن سے عام آدمی متاثر ہوں گے لیکن فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد سے ملک کے اتحاد و یکجہتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ بل میں اقلیتوں کو مناسب تحفظ کی فراہمی اور خاطیوں کو سزا دینے کی گنجائش تھی لیکن بی جے پی کے اعتراض پر بعض ترمیمات کی گئیں۔ حکومت کو اس بل کی منظوری کے ذریعہ اقلیتوں سے اپنی ہمدردی کا ثبوت دینا چاہئے تھا ۔ یو پی اے اور اس کی حلیف جماعتیں خود کو اقلیتوں کا مسیحا ظاہر کرتی ہیں اور بی جے پی پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن وزارت داخلہ کے تازہ اعداد و شمار نے سیکولرازم کے دعویداروں کا چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔

جاریہ سال کے ابتدائی 10 ماہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے سب سے زیادہ واقعات اترپردیش میں پیش آئے جہاں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے۔ ملک بھر میں 725 فرقہ وارانہ واقعات اور 143 ہلاکتیں ہوئیں جن میں 250 واقعات اترپردیش میں پیش آئے جن میں 96 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ مدھیہ پردیش 70 واقعات کے ساتھ دوسرے اور کرناٹک اور گجرات 61 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ یو پی اے اور اس کے حلیفوں کو جاننا چاہئے کہ جب ملک میں امن نہ ہوں تو استحکام باقی نہیں رہ سکتا اور استحکام کے بغیر کرپشن کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں کانگریس کو خود اپنے ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا لیکن اس پر مباحث سے گریز کیا گیا۔ حالیہ چار ریاستوں کے چناؤ میں شکست کے بعد کانگریس پارٹی اپنے کیڈر کے پست حوصلوں کو بلند کرنے میں مصروف ہوچکی ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم منموہن سنگھ نے سخت لب و لہجہ استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی کو نشانہ بنایا جبکہ سونیا گاندھی نے کارکنوں کو مشورہ دیا کہ اس بدترین شکست سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ اجلاس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ قائدین اور کارکنوں کے حوصلے پست ہیں۔ سونیا گاندھی نے شکست کے باوجود عوامی خدمات کا جذبہ متاثر نہ ہونے کی تلقین کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یو پی اے نے اپنی دوسری میعاد میں عوام کو کرپشن اور اس کام کے سواء کیا دیا ہے؟ اسکامس میں حکومت اس طرح الجھی رہی کہ وہ عوامی مسائل پر توجہ دے نہ سکی جس کا نتیجہ مہنگائی اور عام آدمی کی مجموعی ترقی کی رفتار پر پڑا ہے۔ عوام نے اس کارکردگی کے جواب میں چار ریاستوں میں پارٹی کو سبق سکھایا۔ اب کیا آئندہ چار ماہ میں کانگریس ملک بھر میں عوامی اعتماد دوبارہ جیت پائے گی؟ آج کے سیاستدانوں اور رہنماؤں کے بارے میں انیس دہلوی نے کہا ہے ؎
یہ رہنما ہیں کہ جادوگروں کی ہے ٹولی
یقیں کرو کہ یہ ٹولی سمٹنے والی ہے