یونانی حکماء صرف یونانی طریقہ علاج و معالجہ پر منحصر

ایلوپیتھی ڈاکٹرس کو آیورویدک ادویات تجویز کرنے کی اجازت پر حیرت، فرضی ڈاکٹرس کے نام پر حکماء کو ہراساں کرنا نامناسب
حیدرآباد ۔ 30 نومبر (سیاست نیوز) شہریوں کی زندگی سے کھلواڑ کررہے فرضی ڈاکٹرس اپنے مطب بند کرتے ہوئے فرار ہوچکے ہیں۔ محکمہ پولیس کی جانب سے فرضی اطباء کے خلاف شروع کی گئی کارروائی سے پریشان وہ اپنے دواخانوں کو مقفل کرچکے ہیں۔ شہر کے کئی مسلم علاقوں میں معصوم شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے فرضی طبیب گذشتہ دو یوم سے پریشان ہیں۔ پولیس کی جانب سے کی جانے والی یہ کارروائی قابل ستائش ہے لیکن اس کے مضر اثرات ان حکماء پربھی مرتب ہورہے ہیں جو باضابطہ طب یونانی میں پریکٹس کی سند رکھتے ہوئے یونانی ادویات تجویز کررہے ہیں۔ شہر کے کئی علاقوں میں موجود دواخانوں میں جہاں بی یو ایم ایس حکماء کی خدمات بحیثیت ڈاکٹر لی جارہی تھیں۔ ان دواخانوں سے بھی ان ڈاکٹرس کو فوری ہٹا دیا گیا ہے جبکہ بیچلر آف یونانی میڈیسن کی باضابطہ پریکٹس کررہے حکماء کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب محکمہ پولیس اب فرضی ڈاکٹرس اور بی یو ایم ایس کی سند رکھتے ہوئے ایلوپیتھی ادویات تجویز کرنے والوں کے خلاف محکمہ صحت کی اعانت سے مہم چلانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ساؤتھ زون میں پیش آئے ایک موت کے واقعہ کے بعد چوکسی اختیار کرنے والے پولیس عہدیداروں کا کہنا ہیکہ اب تک ایسے 80 فرضی طبیبوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بتایا جاتا ہیکہ محکمہ صحت نے پولیس سے اس بات کی بھی درخواست کی ہے کہ ایسے حکماء و ڈاکٹرس کی بھی نشاندہی کی جائے جو سرکاری ملازمت رکھتے ہوئے خانگی طور پر پریکٹس میں مصروف ہیں۔ یونانی اطباء کا کہنا ہیکہ ایسے حکماء جو یونانی کی ڈگری رکھتے ہوئے ایلوپیتھی کی پریکٹس کررہے ہیں وہ درحقیقت مریض کو ہی نہیں بلکہ طب یونانی کو نقصان پہنچانے کے مرتکب بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید غوث الدین جنرل سکریٹری آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس و سابق مشیر یونانی برائے حکومت آندھراپردیش نے بتایا کہ 1970ء سے رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر پر پابندی عائد ہوچکی ہے اور RMP کی سند دینا ہی بند کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آر ایم پی کی سند ان لوگوں کو دی جاتی تھی جو کسی مسلمہ یونانی یا آیورویدک ڈاکٹر کے پاس ادویہ سازی کی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ انہیں کسی بھی طور پر ڈاکٹر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے بتایا کہ یونی حکماء ایلوپیتھی طرز علاج و معالجہ صرف ہنگامی صورتحال میں اختیار کرسکتے ہیں عموماً انہیں ایلوپیتھی طرز علاج اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ شہر میں اب بھی ایسے کئی حکماء موجود ہیں جو 100 فیصد  یونانی طریقہ علاج پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ طب یونانی کے فروغ کیلئے یہ ضروری ہیکہ اس شعبہ میں سند حاصل کرنے والے اسی شعبہ میں علاج و معالجہ کریں۔ بی یو ایم ایس کی سند رکھتے ہوئے ایلوپیتھی ادویات تجویز کرنے والے حکماء کا استدلال ہیکہ جب ایلوپیتھی کی سند رکھنے والے ڈاکٹرس آیورویدک ادویات تجویز کرتے ہیں تو وہ ایسا کرنے کے مجاز کیوں نہیں ہیں۔ گذشتہ دو یوم کے دوران جن لوگوں کے پاس پولیس کے دھاوے ہوئے ہیں ان میں کئی نامور حکماء بھی شامل ہیں جو کہ صرف یونانی طرز علاج و معالجہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر سید زین العابدین خان سکریٹری سنٹرل یونانی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بتایا کہ محکمہ پولیس کی جانب سے فرضی ڈاکٹرس کے خلاف چلائی گئی مہم قابل ستائش ہے لیکن فرضی ڈاکٹرس اور یونانی حکماء کے ہمراہ یکساں سلوک نامناسب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونانی حکماء کسی حد تک ایلوپیتھی کی پریکٹس کرسکتے ہیں جیسے O.T.C ڈرگس تجویز کرنا ان کیلئے مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ O.T.C ڈرگس ان ادویات کو کہا جاتا ہے جو تشہیر کرتے ہوئے فروخت کی جاتی ہیں اور عوام خود میڈیکل شاپس سے یہ ادویات بغیر کسی ڈاکٹر کی تجویز کے حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے جاری کردہ احکام 202 محکمہ بہبود خاندان و اطفال کے مطابق پبلک ہیلت سنٹرس پر یونانی حکماء سے ایلوپیتھی کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طب یونانی میڈیکل کونسل آف انڈیا کے دائرہ کار میں نہیں ہے بلکہ طب یونانی ود یگر محکمہ آیوش کے طریقہ طب سنٹرل کونسل فار انڈین میڈیسن کے دائرہ کار میں آتے ہیں، اسی لئے C.C.I.M کے قواعد و ضوابط کے تحت یونانی حکماء خدمات انجام دیتے ہیں۔ جعلی اسنادات کے ساتھ عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ کررہے دھوکہ بازوں کے خلاف کارروائی کئے جانے کی کسی بھی گوشے سے مخالفت نہیں کی جاسکتی چونکہ یہ دھوکہ باز ٹھگ بنے ہوئے ہیں جن پر شکنجہ کسنا ضروری ہے۔