یوسف ناظم

 

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
یوسف ناظم پچھلے ساٹھ برسوں سے لگاتار ، مسلسل اور بے تکان لکھ رہے ہیں اور لکھتے ہی چلے جارہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی کے کہنے سے لکھ رہے ہیں بلکہ اپنی مرضی سے لکھ رہے ہیں اور ان کے پڑھنے والے بھی کسی کے کہنے سے نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی سے پڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے گلبرگہ میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جو شوقیہ طور پر مسلسل سائیکل رانی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ وقفے وقفے سے وہ اعلان کردیتے تھے کہ وہ فلاں تاریخ سے فلاں مقام پر لگاتار 79 گھنٹوں یا 80 گھنٹوں تک مسلسل سائیکل رانی کا مظاہرہ کریں گے ۔ لوگ انہیں دیکھنے کیلئے جوق در جوق آیا کرتے تھے ۔ ان ہی دنوں ہمیں بھی سائیکل رانی کا نیا نیا شوق چرایا تھا اور گھنٹے کے حساب سے کرایے پر سائیکل لے کر خوشی خوشی چلایا کرتے تھے اور کرایے کے مسئلہ پر ہمیشہ سائیکل والے سے ہمارا جھگڑا ہوجاتا تھا ۔ ہمیںان صاحب پر بڑا رشک آتا تھا کہ کرایہ دیئے بغیر گھنٹوں سائیکل چلالیتے ہیں۔ چنانچہ ہم بھی کبھی آدھی رات کو اچانک انہیں دیکھنے کیلئے چلے جاتے تھے کہ دیکھیں سائیکل رانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا لوگوں کی نظر بچا کر آرام کر رہے ہیں (جیسے ان دنوں بھوک ہڑتال کرنے والے نظر بچاکر کچھ کھا بھی لیتے ہیں) ۔ شروع شروع میں تو یہ صاحب بڑی پھرتی اور چستی کے ساتھ سائیکل چلاتے رہتے تھے لیکن جوں جوں وقت بڑھتا جاتا تھا ان کی سائیکل رانی ماند پڑتی جاتی تھی اور آخر آخر میں تو وہ سانپ کی چال کی طرح سائیکل چلایا کرتے تھے لیکن یوسف ناظم کا یہ معاملہ نہیں ہے ۔ ساٹھ برس پہلے انہوں نے جس رفتار سے لکھنا شروع کیا تھا ، آج بھی اسی رفتار سے لکھتے چلے جارہے ہیں ۔ اس خصوص میں ان کا معاملہ ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے، والا معاملہ ہے۔انشائیے لکھ رہے ہیں، خاکے لکھ رہے ہیں ، سفرنامے لکھ رہے ہیں، تبصرے لکھ رہے ہیں، کالم لکھ رہے ہیں، دوستوں کو خط لکھ رہے ہیں اور نہ جانے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے خود ہم نے یوسف ناظم کی مزاح نگاری کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا تھا ’’یوسف ناظم لگ بھگ چھ دہائیوں سے اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کے دامن کو اپنی بے مثال باغ و بہار تحریروں کے ذریعے مالا مال کر رہے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں کسی دوسرے مزاح نگار نے اتنے لمبے عرصہ تک اتنی آن بان، شان ، اُٹھان اور اپنی ایک الگ پہچان کے ساتھ ساتھ مزاح نگاری نہیں کی ۔ بیشتر مزاح نگار عموماً لمبی ریس کے گھوڑے نہیں ہوتے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی فطری شوخی ، جولانی ، خوش دلی ، بذلہ سنجی اور شگفتگی کم ہوتی جاتی ہے لیکن یوسف ناظم کا معاملہ بالکل برعکس  ہے ۔ جوں جوں ان کی عمر بڑھتی جارہی ہے ان کا قلم اتنا ہی شوخ و شنگ ، چلبلا ، تیز ، طرّار ، برجستہ ، بے ساختہ ، کھلنڈرا اور بے تکلف ہوتا جارہا ہے ۔ کلاسیکی ادب سے گہری واقفیت کے باعث ان کے اسلوب میں ایک ایسا آہنگ ، رچاؤ اور اہتمام نظر آتا ہے جو ہمارے بہت کم مزاح نگاروں کو میسر آیا ہے‘‘ ۔

یوسف ناظم اس دور کے بڑے مزاح نگار ہیں۔ تاہم ان میں اور ہم میں بعض مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ایک مماثلت تو اردو مزاح نگاری کی ہی ہے ۔ دوسری مماثلت یہ کہ ان کا تعلق بھی ہماری ہی طرح سابق ریاست حیدرآباد کے علاقہ مرہٹواڑہ سے رہاہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سابق ریاست حیدرآباد میں کچھ اس ڈھنگ سے گزارے کہ جب بھی موقع ملتا ہے ہم اس سابق ریاست کے تینوں علاقوں یعنی کرناٹک، مرہٹواڑہ اور تلنگانہ سے بڑی سہولت کے ساتھ اپنا رشتہ پیدا کرلیتے ہیں۔ اگرچہ ہم کرناٹک میں پیدا ہوئے تھے اور زیادہ تر ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کرتے رہے لیکن گرمی کی چھٹیوں میں اپنے آبائی  شہر عثمان آباد ضرور جایا کرتے تھے اور وہاں کے دیہاتوں میں چھٹیاں گزارتے تھے ۔ (کچھ ابتدائی تعلیم وہاں بھی حاصل کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اس ابتدائی تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکے) ۔ سچ تو یہ ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد کی تین مقامی زبانوں میں سے ہم صرف مراٹھی ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔

بعد میں حیدرآباد سے ہمارا جو تعلق پیدا ہوا تو کچھ ایسا پیدا ہوا کہ لوگ اب ہمیں حیدرآبادی ہی سمجھتے ہیں۔ تیسری مماثلت یہ کہ یوسف ناظم کی پیدائش کی بھی دو دو تاریخیں ہیں۔ وہ اصل میں 7 نومبر 1921 ء کو جالنہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن بزرگوں نے سرکاری ریکارڈ میں انہیں تین برس پہلے یعنی 1918 ء میں پیدا ہونے پر مجبور کردیا ، البتہ تاریخ پیدائش وہی رہنے دی۔ ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہم اصلاً 15 جولائی 1936 ء کو پیدا ہوئے تھے لیکن ہمارے والدین نے سرکاری ریکارڈ میں ہمیں بھی تین برس پہلے یعنی 1933 ء میں پیدا ہونے پر مجبور کردیا ۔ غالباً اس زمانے میں سابق ریاست حیدرآباد کا نظام تعلیم ہی کچھ ایسا تھا کہ طالب علم کے جلدی بالغ ہونے کو مستحسن سمجھا جاتا تھا ۔ ایک اعتبار سے یہ اچھا بھی ہے کیونکہ کسی ادیب یا شاعر کی پیدائش کی اگر دو دو تاریخیں ہوں تو آنے والے محققین کو اس سلسلے میں کام کرنے کا بڑا موقع ملتا ہے ۔ (ہمارے کرم فرما جگن ناتھ آزاد کو ہی دیکھئے کہ اپنی زندگی کی کئی بیش قیمت ساعتیں انہوں نے علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم کرنے میں گنوادیں اور بالآخر علامہ اقبال کو ان کی صحیح تاریخ پیدائش پر پیدا کر کے ہی دم لیا)۔ بس اتنی سی مماثلتیں ہی ہم میں اور یوسف ناظم میں موجود ہیں۔ ورنہ کہاں وہ اور کہاں ہم۔ وہ ساٹھ برس سے مزاح نگاری کر رہے ہیں اور ہماری مزاح نگاری کا چالیسواں ابھی ایک برس پہلے ہوا ہے ۔ وہ جامعہ عثمانیہ کے اولین مزاح نگاروں میں سے ہیں اور بفضل تعالیٰ آج بھی وہ مزاح نگاری کے میدان میں پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ۔ سچ پوچھئے تو جامعہ عثمانیہ سے اتنا لمبا فیض جامعہ عثمانیہ کے کسی اور فرزند نے نہیں اٹھایا۔ (خدا انہیں نظر بد سے بچائے) ۔
یوسف ناظم ہمارے بڑے بھائیوں کے ملنے والوں میں سے ہیں۔ اگرچہ ہمارے حیدرآباد آنے تک یہ حیدرآباد سے جاچکے تھے ، کیونکہ ا پنی ملازمت کے سلسلے میں انہیں اضلاع میں رہنا پڑتا تھا ۔ تاہم وہ اکثر حیدرآباد آتے جاتے رہتے تھے اور ہم انہیں دور ہی سے دیکھ کر خوش ہولیا کرتے تھے ۔ تاہم 1966 ء میں جب زندہ دلانِ حیدرآباد نے مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس منعقد کی تو ان سے ہمارا ربط ضبط گہرا ہوتا چلا گیا ۔ کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی ، آئی ایس جوہر اور خواجہ عبدالغفور کے علاوہ ممبئی کی کئی اہم شخصیتوں کو حیدرآباد لانے کے وہی ذمہ دار تھے ۔ یہی نہیں بھوپال ، پٹنہ ، دہلی ،چندی گڑھ، کراچی اور خود ممبئی میں مزاح نگاروں کے کئی اجتماعات کے انعقاد میں انہوں نے عملی مدد کی ۔ ایک زمانہ میں ہم ممبئی بہت جایا کرتے تھے اور جب بھی وہاں جاتے تو ہمارا قیام ان ہی کے ہاں ہوا کرتا تھا ۔ یوسف ناظم نہ صرف اپنی تحریر سے بلکہ زبانی گفتگو کے ذریعہ بھی مزاح  پیدا کرنے کے ماہر ہیں۔ ان کی فقرہ بازیاں محفلوں کو زعفران زار بنادیتی ہیں۔ یوسف ناظم اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کا ایک انمول سرمایہ ہیں۔

ہمیں اس بات کی بے حد مسرت ہے کہ اورنگ آباد کی دل رس ایجوکیشنل کلچرل چیرٹیبل اینڈ لٹریری سوسائٹی نے یوسف ناظم کی ساٹھ سالہ تحریروں کا ایک ضخیم انتخاب ’’دامنِ یوسف‘‘ کے نام سے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے ۔ اس کتاب کے مرتب عنایت علی ہیں جو دل رس سوسائٹی کے معتمد بھی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی وہ ’’یاد وجد‘‘ کے عنوان سے ایک یادگار کتاب شائع کرچکے ہیں اور اس سوسائٹی کے ذریعہ اور بھی کئی اچھے کام انجام دے رہے ہیں۔ یوسف ناظم بسیار نویس ادیب ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ ہر روز اتنی تحریریں تو ضرور لکھ لیتے ہیں کہ اوسطاً ایک مضمون تیار ہوجائے۔

جس ادیب نے ساٹھ برس تک لگاتار لکھا ہو اس کی تحریروں کا انتخاب شائع کرنا یقیناًایک دشوار کام ہے ۔ حسن چشتی نے ہماری تحریروں کا انتخاب چار جلدوں میں مرتب کر کے شائع کرایا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ حسن چشتی نے جس ڈھنگ سے اس انتخاب کو مرتب کیا ہے ، ہمارے بس کی بات نہیں تھی ۔ یہی حال عنایت علی کا بھی ہے جنہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہے ۔ تاہم اس انتخاب میں باقر مہدی کے بارے میں یوسف ناظم کے شہرۂ آفاق خاکے کی غیر موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ یہ وہ یادگار خاکہ ہے جس سے نہ صرف باقر مہدی بلکہ یوسف ناظم بھی ادب میں اچھی طرح پہچانے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کتاب میں یوسف ناظم کا لکھا ہوا کوئی بھی شخصی خاکہ شامل نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ عنایت علی ، یوسف ناظم کے خاکوں کا الگ سے کوئی انتخاب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ اگر ایسا ہے تو انہیں یہ انتخاب ضرور مرتب کرنا چاہئے تاکہ باقر مہدی پر یوسف ناظم کا خاکہ اس میں شامل ہوجائے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب دوستوں کو یوسف ناظم کا یہ خاکہ زبانی یاد ہے اور اس کے کئی جملے اب بھی محفلوں میں شعروں کی طرح دہرائے جاتے ہیں ۔ یوسف ناظم کی بیس تصانیف کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا یہ انتخاب 424 صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کی طباعت نہایت دیدہ زیب ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ کتاب کے سرورق پر یوسف ناظم کی جو تازہ ترین تصویر شائع ہوئی وہ بھی دیدہ زیب ہے ۔ نفیس طباعت کا اس قدر اہتمام کرنے کے باوجود ہمیں یہ شکایت ہے کہ کتاب میں کتابت کی  غلطیاں خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ مانا کہ کتابت کی غلطیاں اردو کتابوں کا نشان امتیاز سمجھی جاتی ہیں لیکن کم از کم طنز ومزاح کی کتابوں میں کتابت کی  غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ معصوم قاری کتابت کی غلطیوں کو بھی مزاح کا نادر نمونہ سمجھ لیتا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن جلد ہی شائع ہوگا ۔ کم از کم اس وقت کتاب کو ان غلطیوں سے پاک کردیا جائے ۔     (5 اکتوبر 2003 ء)
(دوسری قسط اگلے اتوار کو)