یوسف ناظم

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
صاحبو ! کیا زمانہ آگیا ہے (ہمیں تو بالکل قیامت کے آثار دکھائی دیتے ہیں)۔ سچ کہنے پر اور وہ بھی سچا سچ کہنے پر ہم جیسے بے گناہوں اور بے قصوروں کو سنگسار کیا جارہا ہے ۔  پچھلے مہینے ہمارے پاس اردو کے صف اول کے مزاح نگار یوسف ناظم کی کتاب ’’دامن یوسف‘‘ آئی تھی ۔ قارئین نوٹ فرمالیں کہ ہم نے یوسف ناظم کو صف اول کا مزاح نگار کہا ہے ، ’’’صفحہ اول ‘‘ کا مزاح نگار نہیں کہا ۔ یہ صراحت بھی ہم صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ ہمارے ایک بے لوث مداح ہمیں جب بھی خط لکھتے ہیںتو ہمیں ’’صفحہ اول کا مزاح نگار‘‘ ہی لکھتے ہیں اور ہم نے بھی اُن کی یہ بات مان لی ہے کیونکہ مزاح نگاروں کی پہلی صف میں تو یوسف ناظم پہلے ہی سے موجود ہیں بلکہ خاصے طویل عرصہ سے موجود ہیں ۔ کیوں نہ ہم ’’صفحہ اول ‘‘ پر قانع ہوجائیں۔ دیکھا جائے تو ان دنوں صفحہ اول کی اولیت بھی کسے ملتی ہے ۔ مانا کہ ایک زمانے میں محمود و ایاز دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے تھے، لیکن نماز کی صف اور ادب کی صف میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ ہمیں ’’دامن یوسف‘‘ یوسف ناظم نے نہیں بھیجی تھی بلکہ اس کے مرتب میر عنایت علی نے اورنگ آباد سے بھیجی تھی (یوسف ناظم چونکہ سخن فہم اور مردم شناس آدمی ہیں ، اس لئے ہمیں اپنی کتابیں ذرا کم ہی بھیجتے ہیں)۔ جس دن ہمیں یہ ضخیم کتاب ملی اس وقت دن کے تین بجے تھے ۔ ہم نے اسے کھولتے ہی پڑھنا جو شروع کیا تو پڑھتے ہی چلے گئے ، یہاں تک کہ رات کے تین بج گئے ۔ اس لئے کہ کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ رات کا کھانا بھی ہم نے کچھ اس طرح کھایا کہ بائیں ہاتھ میں کتاب رکھی اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے رہے ۔

س رات کیا کھایا اب ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا ۔ البتہ کتاب میں کیا کچھ تھا وہ ہمیں اب بھی حرف بہ حرف یاد ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اپنی ’’نصف بہتر ‘‘ کے پکوان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری اہلیہ محترمہ نے اس کتاب کو ڈائننگ ٹیبل پر اس جگہ رکھ چھوڑا ہے جہاں آچار ، ٹماٹر کا سوس ، سونف ، سرکہ ، نمک اور کالی مرچ وغیرہ کی بوتلیں رکھی رہتی ہیں۔ یہاں یہ مثال بھی ہم صرف یہ ثابت کرنے کیلئے پیش کر رہے ہیں کہ کتاب بے حد دلچسپ تھی ۔ اگر آپ اس معاملے کو خدانخواستہ یوسف ناظم سے رجوع کریں تو وہ اس حوالے سے یہ ثابت کردیں گے کہ ہم نہایت بیکار اور ازکارِ رفتہ آدمی ہیں اور ہمارے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے کہ لگاتار بارہ گھنٹوں تک ایک ہی کتاب کو پڑھنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ بہرحال اس کتاب کے مطالعے کے بعد دوسرے ہی دن ہم نے ’’دامن ِیوسف‘‘ کے بارے میں ایک کالم’’ یوسف ناظم کا دامن‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا اور اس کالم میں ہم نے اپنے قلم کو قابو میں رکھتے ہوئے اور اسے توڑے بغیر جائز اور ایماندارانہ سی تعریف کردی تھی (حالانکہ وہ اس سے زیادہ تعریف کے مستحق تھے) اور یہ کہا تھا کہ یوسف ناظم کا دامن طنز و مزاح کے سرمایے سے مالا مال ہے اور وہ خود ہمارے طنزیہ و مزاحیہ ادب کا انمول سرمایہ ہیں۔ ارے صاحب !ہماری اتنی سی تعریف پر وہ اتنے برگشتہ خاطر ، برہم ، ناراض اور خفا ہوگئے ہیں کہ ہماری تعریف کے دامن کو تار تار کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو ہم سے یہ پوچھا ہے کہ جناب آپ سے کس نے کہا تھا کہ اتنا محبت آمیز (بلکہ شفقت آمیز) مضمون لکھیں ۔ (ان کی اطلاع کیلئے نہیں بلکہ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میر عنایت علی نے کہا تھا) ۔ ان کی خفگی کا لب لباب یہ ہے کہ حضرت آپ ہوتے کون ہیں ، میری تعریف کرنے والے ۔ تعریف کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جب یہ تعریف حد سے تجاوز کرجائے تو تعریض کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ تعریف سے لبریز آپ کی لکھی ہوئی سطریں لوگ تو پڑھیں گے ہی لیکن مزاح نگار ہونے کے ناطے میں سطریں کم پڑھتا ہوں اور بین السطور میں زیادہ پڑھتا ہوں۔ اس سے تو لگتا ہے کہ آپ کی نیت اچھی نہیں ہے ۔ غرض وہ ہم سے اتنے خفا ہیں کہ ہمیں تو ڈر ہونے لگا ہے کہ کہیں وہ ہمارے خلاف ’اضافہ حیثیتِ عرفی‘‘ کا دعویٰ نہ دائر کردیں(ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ اس وقت دائر کیا جاتا ہے جب کسی کی حیثیت عرفی میں اضافہ نہیں بلکہ کمی واقع ہوئی ہو)۔ یقین مانیے ہم نے تو ان کی حیثیت عرفی میں اپنی بساط کے مطابق تھوڑا سا اضافہ کرنے کی حقیر سی کوشش کی تھی ۔ ذرا دیکھئے کہ ہم جیسے چھوٹے مزاح نگار کی محبت کا ایک بڑے مزاح نگار کی طرف سے کیا صلہ مل رہا ہے ۔ سچ ہے اس دنیا میں بیکسوں کا کوئی ہمدرد نہیں ہوتا ۔ انہوں نے ہمارے مضمون کو سرے سے مضمون ہی ماننے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ان کی نظر میں یہ مضمون نہیں بلکہ قصیدہ ہے یا سہرا ہے ۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ تعریف پر بھی بھڑک اٹھنے لگے ہیں۔

یوسف ناظم نے اظہار برہمی کے طور پر’’سیاست‘‘ میں اپنا جو مضمون چھپوایا ہے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ مجتبیٰ نے اپنے اس کالم میں مجھ پر گل اور ثمر ہی نہیں پھینکے ہیں بلکہ سالم چمن ہی کو مجھ پر کھینچ مارا ہے اور میری گردن میں اتنا  وزنی ہار ڈال دیا ہے کہ بوجھ وہ سرپہ گرا ہے کہ اٹھا ئے نہ بنے ۔ ہاروں کے سلسلے میں انہوں نے اپنے علاقے کی ایک روایت یہ بھی بیان کی ہے کہ ان کے علاقہ میں گلے میں ڈالے جانے والے جو ہار بنائے جاتے ہیں ، ان میں پھول کم ہوتے ہیں اور پھل جیسے سنترہ اور نارنگی و غیرہ زیادہ ہوتے ہیں ۔ پھر ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجتبیٰ نے بھی میرے گلے میں پھلوں کا ایسا ہار ڈالا ہے جو موٹے موٹے خربوزوں اور قدِ آدم تربوزوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے ( مبالغے کی بھی ایک حد ہوتی ہے ) ۔ بہرحال پھل دار ہاروں کی اس روایت پر ہمیں خود اپنی ایک بات یاد آگئی۔ چار سال پہلے مشہور شاعر رئیس رام پوری نے اپنے والد بے تک رامپوری کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں ہمیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے رامپور بلایا تھا ۔ یوسف ناظم کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پھل دار ہاروںکی یہ رسم ان کے علاقے میں ہی نہیں بلکہ رام پور میں بھی رائج ہے ۔ مہمان خصوصی اگر بہت قابل احترام اور معتبر ہو تو وہاں بھی اسے خشک میوؤں اور پھلوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں جو ہار پہنایا گیا وہ کئی درجن کھوپروں ، سوکھے کھجوروں ، انجیروں ، باداموں اور اخروٹوں پر مشتمل تھا ۔ اس کا وزن پانچ چھ کیلو گرام سے کم ہرگز نہیں تھا کیونکہ اس ہار کو پہننے کے بعد ہماری گردن بھی شرم کے مارے جھک گئی تھی۔ ہم تو اس بھاری ہار کواُٹھاکر رام پور سے دہلی لانے کے قابل بھی نہیں تھے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ رئیس رام پوری نے ہمارے سفر کیلئے ایک ایرکنڈیشنڈ موٹر کا بندوبست کردیا تھا ۔ اس ہار کو دیکھ کر ہماری اہلیہ بے حد خوش ہوئیں اور اہل رام پور کی ادب دوستی اور ادب نوازی کے گن گانے لگیں۔ کہنے لگیں مستقبل میں تمہیں ایسے ہی ادبی جلسوں میں جانا چاہئے ۔ چھ مہینوں بعد ایک دن ہم سے کہنے لگیں ’’رئیس رام پوری سے کہو کہ وہ رام پور میں پھر ا یک ادبی تقریب رکھیں کیونکہ پچھلی تقریب کے ہار کا آخری کھوپرا آج ہی نکالا ہے ۔ ‘‘بہرحال ہمیں اپنی ایک بات یاد آگئی تو اس کا ذکر کردیا ۔

یوسف ناظم نے یہ بھی لکھا ہے کہ ماضی میں ہم نے ان کے بارے میں کہیں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ یوسف ناظم دوسرے درجے کے ادب (یعنی مزاح نگاری ) کے درجہ اول کے ادیب ہیں۔ وہ ہمارے اس جملے سے بھی خفا نظر آتے ہیں ۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ہمارے ایک مداح نے ہماری تعریف کرتے ہوئے ہمارے اسی جملے سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا تھا ’’مجتبیٰ حسین دوسرے درجے کے ادب کے پہلے درجے کے ہی نہیں بلکہ پرلے درجے کے ادیب ہیں‘‘۔ بخدا ہم تو اس جملے سے خفا نہیں ہوئے تھے کیونکہ مزاح نگار کو سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم اپنے قارئین سے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ یوسف ناظم کی خفگی اور ہماری وضاحت سے خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں۔ یہ تو دو مزاح نگاروں کے بیچ آپسی چھیڑ چھاڑ اور فقرے بازی کا معاملہ ہے ۔ آپ نے وہ گھسا پٹا لطیفہ تو ضرور سنا  ہوگا کہ ایک ٹرین میں دو سردار جی سفر کر رہے ہیں ۔ ایک سردار جی معمر تھے اور دوسرا سردار جوان تھا ۔ ٹرین چلنے لگی تو ان دونوں سرداروں کے بیچ جو گفتگو ہوئی اسے ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔
بوڑھا سردار ( نوجوان سردار سے) : بادشاہو ! کہاں جارہے ہو ؟
نوجوان سردار : ممبئی جارہا ہوں ۔
بوڑھا سردار : ممبئی تو میں بھی جارہا ہوں۔ کیا تم ممبئی میں رہتے ہو؟
نوجوان سردار : ہاں ممبئی میں رہتا ہوں۔
بوڑھا سردار : ممبئی میں تو میں بھی رہتا ہوں۔ تم کہاں رہتے ہو؟
نوجوان سردار : باندرہ میں رہتا ہوں۔
بوڑھا سردار : باندرہ میں تو میں بھی رہتا ہوں۔ تم وہاں کون سے اپارٹمنٹ میں رہتے ہو؟
نوجوان سردار : ایکتا اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔
بوڑھا سردار (حیرت سے ) : یار ! ایکتا اپارٹمنٹ میں تو میں بھی رہتا ہوں۔ کون سے نمبر کے فلیٹ میں رہتے ہو؟
نوجوان سردار : 204 میں رہتا ہوں۔
بوڑھا سردار (خوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے): یار کمال کردیا ۔ فلیٹ نمبر 204 میں تو میں بھی رہتا ہوں ۔
برابر میں ایک مسافر بیٹھا ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا ۔ اس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’جناب ! آپ بھی کمال کے لوگ ہیں۔ایک ہی محلے کے ایک ہی اپارٹمنٹ کے ایک ہی فلیٹ میں رہتے ہو پھر بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتے ‘‘۔
اس پر بوڑھے سردار نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ’’میاں ! یہ میرا بیٹا ہے اور میں اس کا باپ ہوں ۔ ہم دونوں اصل میں ٹائم پاس کرنے کیلئے ایسی باتیں کر رہے ہیں تاکہ سفر آرام سے کٹ جائے ۔ آپ کو بیچ میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘
سمجھ دار قارئین نے اس لطیفے کا مطلب سمجھ لیا ہوگا ۔ یہ تو دو مزاح نگاروں کا معاملہ ہے ۔ وہ تو ٹائم پاس کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں ۔ پھر ان کی منزل بھی قریب آنے والی ہے ۔ یوں بھی ان کے پاس ٹائم پاس کرنے کیلئے ٹائم ہی کتنا بچا ہے ۔ مزاح نگاروںاور سرداروں کی باتوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خود مزاح نگاروںکو بھی کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا حالانکہ مزاح نگار اندر سے بے حد دکھی اور غمگین انسان ہوتا ہے ۔ لوگ اس کی باتوں پر ہنستے تو بہت ہیں لیکن اس ہنسی کی قیمت بھی مزاح نگارہی ادا کرتا ہے ۔ قہرِ درویش برجانِ درویش اسی کو تو کہتے ہیں :
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکرِ ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
(مخدومؔ)
(23 نومبر 2003 ء)