یتیم خانہ وکٹوریہ، نظام کی سیکولر شناخت کی ایک اور تاریخی مثال

حیدرآباد ۔ 31 مئی ۔ یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان کے قیام و طعام کا انتظام کرنے میں سبقت لے جانے کو اسلام نے کافی پسند کیا ہے۔ جو یتیم اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اس کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے بہت پسند کیا ہے اور قیامت کے دن اس کیلئے اعزاز و اکرام و انعام کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ ہمارے اسلاف و حکمرانوں نے یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مثالیں قائم کیں ہیں جوکہ انسانیت کیلئے ہمیشہ ایک درس بن چکی ہے۔ حیدرآباد دکن کے بادشاہوں، امراء اور نوجوان نے بھی یتیموں اور بیواؤں کے لئے بہت کچھ کیا اور دکن کے نظام خاندان کے حکمرانوں نے بھی کئی یتیم خانے اور سرائے بنائے ہیں جوکہ اس حسن سلوک اور انسانیت کا درس دیتی ہے۔

اس کی ایک بہترین مثال سرور نگر کا یتیم خانہ ہے جس کو نظام ہشتم میر محبوب علی خان نے 113 برس قبل تعمیر کروایا تھا جوکہ آج یتیم خانہ وکٹوریہ کے نام سے مشہور ہے۔ 70 ایکڑ اراضی پر محیط فن تعمیر کی یہ شاہکار عمارت 1901 محل سرور نگر کے نام سے تعبیر ہونے والی اس عمارت کو کسی وجہ سے قیام کیلئے موضوع نہیں سمجھا گیا،اس کا افتتاح یکم ؍ جنوری 1903ء کو عمل میں آیا۔ حیدرآباد کے حکمراں میر محبوب علی کی جانب سے تعمیر کروائی گئی اس عمارت کا نام انگریزوں کی طرح ہونے کی اہم وجہ ملک برطانیہ وکٹوریہ سے نظام دکن کے گہرے روابط کا نتیجہ ہے کیونکہ جب وکٹوریہ کا انتقال ہوا تو اسی سال اس عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اس کا نام وکٹوریہ میموریل آر فن ایچ یا یتیم خانہ وکٹوریہ رکھ کر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ یتیم خانہ وکٹوریہ کے قیام کا مقصد ہی یتموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا تھا اور یہاں موجود یتیم بچوں کیلئے اس وقت کرتا پاجامہ یونیفارم ہوا کرتا تھا اور اساتذہ کیلئے شیروانی کا زیب تن کرنا لازمی تھا

لیکن ہندوستان کی تقسیم اور پولیس ایکشن کے بعد اس یتیم خانہ کی تہذیب بھی بدل گئی لیکن اس کا مقصد آج بھی زندہ ہے اور کئی یتیم اس عمارت سے فائدہ اٹھا رہے۔ 70 ایکر اراضی پر موجود اس شاندار عمارت میں اب وکٹوریہ میموریل ہوم ریسیڈنشیل اسکول کا بورڈ جس پر اس کے قیام کی تاریخ یکم ؍ جنوری 1903 کے علاوہ اس کو تعمیر کرنے والے حکمران عزت مآب مرحوم میر محبوب علی خاں بہادر (1863-1911) درج ہے اور اب اس میں 703 لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں اور یہاں داخلہ کیلئے بچوں کو والدین کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس پیش کرنی پڑتی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور دیکھ بھال کیلئے 30 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے۔ ماضی میں یہ ایک اردو میڈیم اسکول ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ تلگو میڈیم ریسیڈنشیل اسکول میں تبدیل ہورہا ہے۔ سوشیل ویلفیر ڈپارٹمنٹ کی سرپرستی میں موجود اس تاریخی اور آثارقدیمہ میں شامل عمارت کی لکشمی پاروتی سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ 70 ایکڑ اراضی پر تعمیر کردہ یہ فن تعمیر کی شاہکار عمارت 420 فیٹ طویل، 285 فیٹ چوڑی اور 32 فیٹ اونچی ہے۔ سنٹرل ہال میں محبوب علی پاشاہ کی ہاتھ سے بنائی گئی ایک شاندار تصویر بھی موجود ہے اور اس تاریخی عمارت کا دورہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے 19 جنوری 1953 کو کیا تھا۔

حالیہ عرصہ میں ممبئی کی ایک پارٹی کو اس عمارت کی 18 ایکڑ اراضی 450 کروڑ روپئے میں فروخت کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی لیکن میڈیا کی بروقت مداخلت نے اس سازش کو ناکام بنادیا۔ نظام دکن پر اغیار ہمیشہ فرقہ پرستی اور حیدرآباد کی ترقیمیں کچھ نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ تاریخ سے ناواقف اور فرقہ پرست آج کے سیاسی قائدین اور ملک دشمن عناصر کے منہ پر یہ عمارت ایک زوردار طمانچہ ہے کیونکہ آج سے تقریباً 110 سال قبل میر محبوب علی خاں نے بلحاظ مذہب و ملت یتیموں کیلئے یہ عمارت اپنے ذاتی اخراجات سے تعمیر کروائی تھی جس میں آج جو 703 یتیم بچے موجود ہیں ان میں 700 غیرمسلم اور صرف 3 مسلم بچے ہیں۔ ہائیکورٹ اور عثمانیہ دواخانہ کے فن تعمیر سے میل کھاتی اس عمارت کی آج حکومت سے نگہداشت بھی نہیں ہورہی ہے۔ abuaimalazad@gmail.com