یاد رفتگان وحید اختر

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
بہت پرانے رشتے جب ٹوٹنے اور بکھرنے لگتے ہیں تو دنیا خود بخود چھو ٹی ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے ۔ اگرچہ دنیا نہ تو چھوٹی ہوجاتی ہے اور نہ ہی بڑی مگر رشتوں کے سمٹ جانے پر کسی فرد کا داخلی اور انفرادی احساس تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔اب وحید اختر بھی پچھلے ہفتہ داغ مفارقت دے گئے تو یوں لگ رہا ہے جیسے وہ اپنے ساتھ وہ رفاقتیں اور رقابتیں بھی لے گئے جن کا آغاز 1953 ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج میں ہوا تھا ۔ 43 برس کا عرصہ بہت ہوتا ہے لیکن وحید اختر جیسے شخص کو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے یہ عرصہ پھر بھی کم ہی سمجھا جائے گا۔ اگرچہ اُس وقت کے حیدرآباد میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں لیکن پھر بھی عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو شعر و ادب کا  غلغلہ اور بول بالا تھا ۔ کتنے ہی نوجوان شاعر اور ادیب تھے جو ان دنوں اردو میں لکھ رہے تھے ۔ وحید اختر کالج میں ہم سے تین برس سینئر تھے اور جب ہم بی اے کرنے کیلئے گلبرگہ سے حیدرآباد آئے تھے تو انہیں اورنگ آباد سے حیدرآباد آئے ہوئے دو تین برس بیت چکے تھے ۔ ان کا شمار سینئر طلباء میں ہوتا تھا اور بحیثیت شاعر بھی حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں وہ خاصے جانے پہچانے جاتے تھے ۔ ہم جیسے جونیئر طلباء کو وہ خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ یوں بھی وحید اختر کی انا کچھ اتنی بلند تھی (جو آخر وقت تک بلند ہی رہی) کہ وہ ایروں غیروں کو منہ نہیں لگاتے تھے۔پھر ہم توان کے جونیئر ٹھہرے۔ ان دنوں آرٹس کالج کی ’’بزم اردو ‘‘ کے انتخابات بڑی دھوم دھام کے ساتھ لڑے جاتے تھے۔

خاصی گرما گرمی رہتی تھی ۔ 1954 ء کے انتخابات میں امیدواروں کے دو پینل (Panel) تھے ۔ وحید اختر ایک پینل میں صدارت کے امیدوار تھے اور ہم ان کے مخالف پینل میں جنرل سکریٹری کے عہدہ کے امیدوار تھے ۔ انتخابات کے نتائج آئے تو وحید اختر اور ان کے ساتھی برُی طرح ہار گئے ۔ وحید اختر کی شہرت کے باوجود انتخابات میں ان کی شکست کے بارے میں خود وحید اختر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا۔ ’’نو عمری میں شہرت اور اہمیت حاصل ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی اپنے ہم عمروں سے کٹ جاتا ہے۔ اپنے ہم درسوں سے اس دوری اور بول چال کی غیر حیدرآبایت کے باعث جس شخص کی وجہ سے میں نے اپنا زیاں محسوس کیا اور جس شخص کے ہاتھوں مجھے یونیورسٹی کے کسی الیکشن میں پہلی بار شکست ہوئی وہ مجتبیٰ حسین تھا‘‘۔ ہم تو اس ہار جیت کو کب کے بھول گئے لیکن وحید اختر ایک لمبے عرصہ تک نہیں بھولے ۔ انہیں اسے بھُلانے اور ہمارے تعلق سے اپنے دل کو صاف کرنے میں پورے بیس برس لگ گئے ۔ مگر جب انہوں نے اپنے دل کو صاف کرلیا تو یوں لگتا تھا جیسے وہ سب سے زیادہ ہم سے ہی قریب ہیں۔ وحید اختر اپنے اطراف نہ جانے کیوں طرح طرح کے حصار باندھنے کے قائل تھے ۔ اگرچہ ان کے والدین کا تعلق اترپردیش سے تھا لیکن وحید اختر کی ساری تعلیم و تربیت سابق ریاست حیدرآباد ہی میں ہوئی۔ اس کے باوجود وحید اختر نے کبھی بول چال کے حیدرآبادی لہجہ کو اختیار نہیں کیا۔ جب جب وہ اپنے آپ کو ’’ہم‘‘ کہتے تھے تو خود کو حیدرآباد سے دور کرلیتے تھے۔ وحید اختر میں یہ تضاد ہمیشہ رہا کہ حیدرآباد میں رہے تو اپنی اترپردیش والی نسبت پر فخر کرتے رہے اور اترپردیش میں رہنے لگے تو حیدرآباد سے اپنے تعلق کو نمایاں کرنے لگے ۔ وحید ا ختر نے نہایت مشکل حالات میں  تعلیم حاصل کی تھی اور بچپن کے ان نامساعد حالات کی تلخی کا اثر ان کی ذات میں ہمیشہ برقرار رہا۔ ہر کسی سے الجھنا اور خاص طور پر بڑوں سے الجھنا اورالجھ کر پھر سے اپنے آپ کو الجھاتے چلے جانا ان کی فطرت تھی ۔ وہ بڑے ذہین آدمی تھے اور اپنی ’’روشنی طبع ‘‘ کو اپنے لئے بلا بنالینے کا ہنر انہیں آتا تھا ۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع اور عمیق تھا اور کلا سیکی ادب پر ان کی نظر بہت گہری تھی ۔ ہم نے بہت کم شاعروں کوا چھی نثر لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ وحید اختر بے پناہ نثر لکھتے تھے اور بے تکلف لکھتے تھے ۔ لگ بھگ ایک برس تک انہوں نے روزنامہ ’’سیاست‘‘ کا طنزیہ کالم ‘‘ شیشہ و تیشہ‘‘ بھی لکھا۔60 ء کی دہائی میں رسالہ ’’صبا‘‘ میں اُن کا ایک تنقیدی مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ جدیدیت ترقی پسندی کی توسیع ہے ۔ اس مضمون کے باعث سجاد ظہیر سے ان کا معرکہ ہوا اورایک لمبے عرصہ تک ’’صبا‘‘ میں اس پر بحث چلتی رہی۔ یہ ایک رجحان ساز مضمون تھا جس کی اشاعت کے بعد ہی برصغیر کے ناقدوں نے جدیدیت اورترقی پسندی کا نئے پس منظر میں جائزہ لیا۔

وحید اختر کی حس مزاح بہت تیز تھی اور وہ اکثر ایسے فقرے کہتے رہتے تھے جن میں طنز کی زہرناکی بھی موجود ہوتی تھی ۔ ابھی ایک مہینہ پہلے کی بات ہے ۔ علیگڑھ سے آکر دہلی کے گنگا رام اسپتال میں شریک ہوئے تھے ۔ ہمیں اطلاع کرائی تو ہم ان سے ملنے چلے گئے ۔ بے حد کمزور نظر آئے۔ انہیں اس وقت Intensive Care Unit میں منتقل کیا جارہا تھا ۔ ہم نے ان کے ایک قریبی دوست کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا ’’انہیں آپ کے دہلی آنے کی اطلاع ہے یا نہیں؟‘‘ بولے ’’سارے احباب اپنی بچی کچھی شہرتوں کو سمیٹنے میں مصروف ہیں ۔ ان مردودوں کو کیا اطلاع کرائیں‘‘۔ اتنا کہنے کے بعد ان کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اسپتال کا عملہ انہیں یونٹ میں منتقل کرنے کیلئے تیار کھڑا تھا مگر انہوں نے ہماری آمد کے پیش نظر آدھے گھنٹے کی مہلت مانگی ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم دوسرے دن حیدرآباد جارہے ہیں۔ کسی سے کچھ کہنا ہو تو بتائیں۔ نہایت اعتماد اور اطمینان سے کہا ’’اب کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے‘‘۔

وحید اختر سے یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔
وحید اختر نہایت جری اور نڈر انسان تھے ۔ دو ڈھائی برس سے وہ گردوں کی خرابی کے مرض میں مبتلا تھے ۔ ڈائی لاسیس پر زندہ تھے۔ اس مرض میں آدمی ’’چابی کا گھوڑا‘‘ بن جاتا ہے ۔ چابی دیجئے تو چلتا رہے گا اور وہ بھی دن بدن کمزور ہوتا ہوا ۔ ایسی خطرناک بیماری کے باوجود وحید اختر کبھی اپنے احباب سے اس بیماری کا ذکر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اس کی تفصیل میں جاتے تھے ۔ جب بھی ملتے ادب ، آرٹ اور قریبی احباب کی باتیں کرتے ۔ پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے کہ وہ ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ سانحات اور مصائب کو پورے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنے کا ان میں زبردست مادہ تھا۔ اس کی وجہ غالباً ان کے بچپن کے نامساعد حالات بھی رہے ہوں۔ سات ، آٹھ برس پہلے ایران ایر لائنس کے طیارہ کے حادثہ میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا ۔ ان کی اہلیہ کا پلین رات کو دہلی کے ہوائی اڈے پر آنے والا تھا اور وہ انہیں ریسیو کرنے کیلئے علی گڑھ سے سیدھے ایرپورٹ چلے گئے تھے ۔ طیارہ جب نہیں آیا اور اس کے حادثہ کی اطلاع ملی تو وہ ایرپورٹ سے ا پنے بیٹے حسین وحید اور اس کے احباب کے ساتھ صبح کی اولین ساعتوں میں ہمارے گھر پہنچ گئے۔ انہیں پورے وثوق کے ساتھ یہ پتہ نہیں تھا کہ جو طیارہ حادثہ کا شکار ہوا ہے اس میں ان کی اہلیہ سفر بھی کر رہی تھیں یا نہیں کیونکہ وہ ’’ویٹنگ لسٹ‘‘ کی مسافر تھیں۔ ہم نے انہیں دلاسا دیا کہ ہوسکتا ہے وہ اس طیارہ میں نہ ہوں۔ دن نکل آئے تو وزارت خارجہ اور ایران ایرلائنس کے ذرائع سے پتہ کرلیں گے ۔ وحید اختر نے اس وقت جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے حیرت ناک تھا ۔ ناشتہ کے بعد ہم نے انہیں آرام کرنے کیلئے کہا اور وزارت خارجہ سے تفصیلات حاصل کرنے کیلئے چلے گئے ۔ ہم جانے لگے تو بولے’’آپ کا جانا بیکار ہے ۔ہمارا دل کہہ رہا ہے کہ وہ تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘‘ پھر اپنی ایک پرانی نظم کا مصرعہ سنایا۔
اس سمندرمیں کہاں ڈھونڈنے جائیں تم کو
بولے ’پتہ نہیں یہ مصرعہ ہم سے کیوں اور کیسے سر زد ہوگیا تھا‘‘۔
(ایران ایرلائن کا یہ طیارہ خلیج فارس میں گرا تھا)

یہ کہہ کر وہ بیڈروم میں چلے گئے ۔ دیر تک مختلف ذرائع سے اس بات کی توثیق ہوگئی کہ بیگم وحید اختر اس طیارہ میں سفر کر رہی تھیں، سوال یہ تھاکہ اس بری خبر کو کس طرح وحید اختر پر ظاہر کیا جائے۔جب جب کمرہ میں جھانک کر دیکھا انہیںآنکھیں بند کر کے بستر پرلیٹا ہوا پایا۔ ہم نے اس عرصہ میں ان کے بعض قریبی احباب کو بلالیا کہ جب اس سانحہ کی اطلاع انہیں دی جائے تو وہ بھی موجود رہیں۔ دوپہر میں وہ کچھ دیر کیلئے کمرہ سے باہر آئے تو ہم نے یہ سوچ کر کہ انہیں سانحہ کو برداشت کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جائے، کہا کہ ’’ابھی کوئی مصدقہ اطلاع تو نہیں ملی ہے لیکن قیاس ہے کہ بیگم وحید اختر اس طیارہ میں موجود تھیں۔‘‘ بڑی بے نیازی کے ساتھ بولے ’’آپ بلا وجہ پریشان ہورہے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس طیارہ میں موجود تھیں اور اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔‘‘ پھر وہ کمرہ میں چلے گئے ۔ اسی اثناء میں کچھ احباب بھی آگئے ۔ پھر علیگڑھ سے شہریار کا فون آیا کہ اس خبر کو سن کر ان کے چھوٹے بیٹے محسن کی حالت خراب ہوگئی ہے۔ وحید اختر کو فوراً علی گڑھ بھیجیں ۔ شام کو ہم نے محسن کے بارے میں بتایا تو آدھی رات کو وہ ٹیکسی سے علیگڑھ کیلئے روانہ ہوگئے ۔ وحید اختر اکیلے ہی اکیلے کمرہ بند کر کے اس سانحہ کو برداشت کرتے رہے اور کسی دوست کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ تسلی کے دو لفظ بھی کہہ سکے۔ وحید اختر کی آنکھیں سرخ تھیں لیکن انہوں نے کسی کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کو دیکھ سکے۔ صبر و تحمل اور برداشت کا یہ مظاہرہ حیرت ناک تھا ۔

وحید اختر کی سینکڑوں باتیں اب یاد آرہی ہیں ۔ علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی بڑی عزت تھی لیکن ان کے مزاج کی تلخی کی وجہ سے لوگ ان سے ملتے ہوئے کتراتے تھے۔ علیگڑھ میں رہ کر بھی وہ الگ تھلگ ہی رہتے تھے۔ فلسفہ کے لکچرار کی حیثیت سے وحید اختر نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا ۔ بعد میں وہ صدر شعبہ فلسفہ اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس بھی بن گئے تھے ۔ اُن کی راست گوئی بلکہ تلخ گوئی کی وجہ سے یونیورسٹی کے ارباب بھی پریشان رہتے تھے ۔ پچھلے مہینہ دہلی کے گنگا رام اسپتال میں ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ حیدرآباد سے واپس آکر ہم نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ واپس علیگڑھ چلے گئے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے شہریار نے فون پر بتایاکہ اُن کی حالت بہت خراب ہے اور اب وہ کچھ ہی دن کے مہمان رہ گئے ہیں۔ پھر دو ایک دن کے اندر ہی یہ اطلاع آگئی کہ وہ بالآخر چل بسے ۔ وحید اختر سے بہت سے لوگوں کو ’’اختلاف‘‘ تھا لیکن سب ان کی بے پناہ ذ ہانت اور علمیت کے بارے میں ’’متفق‘‘ نظر آتے تھے۔ وہ اپنی وضع کے اکیلے آدمی تھے۔ نہ جانے کیوں ہم سے اتنی محبت کرتے تھے ۔ علیگڑھ سے آتے ہی ہمیں فون کرتے تھے ۔ پچھلے سال ہم ’’رشید احمد صدیقی سمینار ‘‘ میں حصہ لینے کیلئے علی گڑھ گئے تو دیکھا کہ وحید اختر سامعین میں موجود ہیں ۔ حالانکہ ان کی صحت ان دنوں بہت خراب تھی ۔ بولے ’’ہم تو صرف آپ کی وجہ سے یہاں آگئے ہیں ورنہ ہم علی گڑھ کی کسی ادبی محفل میں نہیں جاتے‘‘۔ وحید اختر کے چلے جانے سے اردو ادب کا نقصان تو ہوا ہی ہے ، ہمارا بھی ایک ایسا شخصی نقصان ہوا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔   (ڈسمبر 1996  ء)