یاد رفتگان محبوب حسین جگرؔ

میرا کالم مجتبیٰ حسین
1956 ء سے میری تحریریں روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں اور زیر نظر تحریر میری پہلی تحریر ہے جو جگر صاحب کی نظر سے گزرے بغیر شائع ہورہی ہے اورمجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے اور یہ تحریر ان کی نظر سے گزرتی تو کبھی شائع نہ ہوتی۔ کوئی ان کا ذکر کرنا تو خوش ہونا تو بہت دور کی بات ہے ، وہ اس سے ناراض ہوجاتے تھے۔ اب جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی اور بالخصوص آج کی دنیا کی مخلوق بالکل نہیں تھے۔
جگرؔ صاحب میرے بڑے بھائی تھے۔ وہ ابراہیم جلیس مرحوم سے پانچ سال اور مجھ سے سترہ برس بڑے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں کی ذہنی تربیت میں ان کا بڑا ہاتھ تھا ۔ ابراہیم جلیس تو خیر 1948 ء میں پاکستان چلے گئے تھے لیکن میری ذہنی تربیت تو سراسر ان ہی کی مرہون منت تھی ۔ آزادی سے پہلے جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو گلبرگہ میں میرے نام سے میرے پتے پر پھول ، غنچہ اور بچوں کے کئی رسالے آیا کرتے تھے ۔ یہ سارے رسالے جگر صاحب نے میرے نام جاری کروا رکھے تھے ۔ اس عمر میں اپنے نام سے کوئی رسالہ آتا تھا تو فطری طور پر مجھے بہت خوشی ہوتی تھی اور میں اس کے ایک ایک لفظ کو پڑھنا نہ صرف ضروری سمجھتا تھا بلکہ اپنے نام آئے ہوئے ان رسالوں کو میں کسی اور کو پڑھنے کیلئے بھی نہیں دیتا تھا ۔ ادب کو اپنی میراث اور اپنی ذاتی زندگی کا لازمی جز سمجھنے کا پہلا احساس مجھے ان ہی رسالوں کے ذریعہ ہوا۔ حیدرآباد پر پولیس ایکشن کے بعد جو افراتفری پھیلی تو 1949 ء میں کچھ عرصہ کیلئے علی گڑھ میٹرک کا امتحان دینے کی خاطر میں گلبرگہ سے حیدرآباد چلا آیا اور حیدر گو ڑہ میں جگر صاحب کے ساتھ رہنے لگا۔

15 اگست 1949 ء کو جب جناب عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب نے مل کر ’’سیاست ‘‘ کا اجراء کیا تو میں حیدرآباد میں ہی موجود تھا ۔ ’’سیاست‘‘ کا پہلا شمارہ لے کر وہ اس دن صبح کو کچھ دیر کیلئے گھر آئے تھے ۔ نہا دھو کر پھر دفتر چلے گئے ۔ اس کے بعد ان کے گھر آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں رہا ۔ وہ تین چار دن میں اچانک گھر چلے آتے تھے ۔ گھر کے اخراجات کیلئے ضروری رقم دیتے تھے اور چلے جاتے تھے ۔ گھر میں ایک نوکر تھا ، وہ کام کرے یا نہ کرے پہلی تاریخ کو اسے پابندی سے تنخواہ ادا کردیتے تھے ۔ 1950 ء میں ، میں پھر گلبرگہ چلا گیا اور 1953 ء میں بی اے کرنے کے لئے دوبارہ حیدرآباد آیا تو اس وقت تک جگر صاحب نے وہ گھر چھوڑدیا تھا کیونکہ ’’سیاست‘‘ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا ۔ ایک عرصہ تک وہ دفتر ’’سیاست‘‘ کے ایک گوشے میں ہی رہتے تھے ۔ مشینوں کے شور شرابے میں رات دیر گئے سوجانے کی عادت انہوں نے ڈال لی تھی ۔ ان دنوں روزنامہ ’’سیاست‘‘ جیسے متوازن معتدل اور غیر جانب دار اخبار کو جاری رکھنے کیلئے عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسے بیان کرنے کیلئے ایک دفتر چاہئے اور حیدرآباد میں بہت سے لوگ اس دور سے واقف ہیں۔ بی اے کرنے کے بعد میں 1956 ء میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ سے بطور صحافی باضابطہ طور پر وابستہ ہوگیا۔

عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب میں ایک ایسی مفاہمت اور ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کی ایک ایسی زبردست صلاحیت تھی کہ دونوں کو کسی بھی مسئلہ پر ایک دوسرے کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ، حالانکہ بظاہر دونوں کے مزاج بالکل مختلف دکھائی دیتے تھے ۔ عابد علی خاں صاحب میں ایک طرح کا دھیما پن ، ٹھہراؤ اور استقلال نظر آتا تھا اور جگر صاحب کے مزاج میں عجلت پسندی ، تلون ، شدت اور بلا کا جلال تھا ۔ البتہ بہت دنوں بعد مجھے ادراک ہوا کہ دونوں کے مزاجوں میں بڑی گہری مماثلت تھی ۔ کیونکہ دونوں کے مزاجوں کی مندرجہ بالا کیفیات کے ظاہر ہونے کے درجات بالکل مختلف تھے۔ دونوں میں ایک دوسرے کیلئے احترام کا یہ عالم تھا کہ اگر جگر صاحب کوئی بات کہہ دیتے تھے تو عابد علی خاں صاحب ان سے کبھی اختلاف نہیں کرتے تھے اور عابد علی خاں صاحب نے کوئی بات کہہ دی تو جگر صاحب اس پر قائم رہتے تھے ۔ اس صدی میں اس طرح کی دوستی کی شاید ہی کوئی مثال مل سکے ۔ جگر صاحب ڈسپلن کے معاملے میں بے حد سخت گیر تھے لیکن اندر سے اتناہی دردمند دل رکھتے تھے ۔ چھوٹا بھائی ہونے کے ناطے میں ان سے راست بات چیت کرتے ہوئے گریز کرتا تھا ، یا تو تحریری طورپر ا پنے خیالات کا اظہار کرتا تھا یا عابد علی خاں صاحب سے بات چیت کرلیتا تھا ۔ جگر صاحب کے ظاہری مزاج کی وجہ سے عابد علی خاں صاحب مجھے بہت عزیز رکھتے تھے ۔ آخری دنوں میں جب وہ دفتر جانے کے قابل نہیں رہ گئے تھے تو وہ ہر دوسرے دن مجھے گھر سے دہلی فون کیا کرتے تھے اور جگر صاحب کو اس کی اطلاع نہیں دیتے تھے ۔ عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب کے کہنے پر میں نے اگست 1962 ء میں شاہد صدیقی کے انتقال کے بعد ’’سیاست‘‘ کا طنزیہ کالم ’ شیشہ و تیشہ‘ لکھنا شروع کیا تھا ۔ اردو مزاح نگاری کے میدان میں آج میں نے جو کچھ بھی حقیر سی کوشش کی ہے وہ ان ہی دونوں بزرگوں کی رہنمائی اور تربیت کا نتیجہ ہے ۔اگرچہ جگر صاحب میرے سب سے بڑے محتسب تھے لیکن میری تحریروں سے سب سے زیادہ وہی لطف اندوز بھی ہو ا کرتے تھے ۔ ان کے اظہار ستائش کا انداز مختلف تھا ۔ انہوں نے میری ہی نہیں حیدرآباد کے سینکڑوں نوجوان صحافیوں کی ذہنی تربیت کی۔ وہ ایک بے لوث ، بے غرض ، بے نیاز اور قلندر صفت انسان تھے ۔ ان کے بس میں جو کچھ بھی تھا اسے دنیا کو دے دینا چاہتے تھے اور دنیا سے کچھ لینا جانتے ہی نہ تھے۔ وہ کسی بھی معاملے میں کسی کو زحمت دینے کے قائل نہیں تھے ۔

9 فروری 1997 ء کو عیدالفطر کے دن ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور 10 فروری کو انہیں حیدرآباد کے میڈی سٹی اسپتال میں شریک کرادیا گیا۔ اسی دن زاہد علی خاں صاحب نے مجھے دہلی فون کیا اور میں اسی شام حیدرآباد آگیا ۔ اسپتال پہنچا تو غنودگی کے عالم میں تھے ۔ ان کے دماغ کی ایک شریان میں خون منجمد ہوگیا تھا جس کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری تھی لیکن اس عالم میں بھی وہ اخبار کے کاموں کے بارے میں ہی باتیں کر رہے تھے اوران کا سیدھا ہاتھ لگاتار کچھ لکھنے میں مصروف تھا ۔ وقفے وقفے سے وہ دفتر کے ملازمین کو بھی پکارتے جارہے تھے۔ یہ کیفیت دو دنوں تک برقرار رہی ۔ پھر خون کا انجماد خود بخود ختم ہوگیا تو وہ پوری طرح ہوش میں آگئے اور یوں باتیں کرنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔ مجھ سے کہا کہ میں دہلی میں اپنے کام چھوڑ کر حیدرآباد کیوں آگیا ۔ وہ ا پنے مرض کی کیفیت کسی سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک واحد شخص تھے جن سے وہ اپنے مرض کے بارے میں کہتے تھے ۔ ان کی علالت کے پورے ایک مہینے میں ڈاکٹر سدھیر نائک نے ان کے علاج پر بھرپور توجہ دی ۔ گھنٹوں وہ جگر صاحب کے ساتھ رہتے تھے اور دن میں کئی بار اسپتال آجاتے تھے ۔ انہیں، پیس میکر ، لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تو جگر صاحب کو تین مرتبہ میڈی سٹی اسپتال کے میڑچل سنٹر میں جانا پڑا ۔ وہ ہر مرحلہ سے گزرے لیکن کبھی اپنی تکلیف کا کسی سے اظہار نہیں کیا ۔ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرلیتے تھے ۔ ان میں صبر و تحمل کا ایک عجیب و غریب مادہ تھا اور ان کی قوت ارادی کتنی مضبوط تھی اس کا اندازہ ان کی علالت کے زمانے میں بھی ہوا ۔ جب بھی ذرا سی طبیعت سنبھلتی تو اس طرح باتیں کرتے جیسے پوری طرح صحت یاب ہوگئے ہوں۔ ان کی علالت کا علم بھی بہت کم لوگوں کو تھا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو زحمت ہو، وقفے وقفے سے وہ دفتر کے لئے ضروری ہدایتیں بھی جاری کرتے رہتے تھے ۔ پورے ایک مہینے میں ان کی صحت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن وہ ا پنی علالت سے بے نیاز ، سماج ، سیاست ، ادب اور حالات حاضرہ پر باتیں کرتے رہتے تھے ۔ زاہد علی خاں اور ظہیر الدین علی خاں آتے تو ان کا اصرار ہوتا کہ وہ اخبار کے کام پر زیادہ توجہ دیں اور بار بار اسپتال نہ آیا کریں ۔ شاہد علی خاں سے البتہ ا پنے مرض کی کیفیت ضرور بتاتے تھے ۔ انہیں اچانک یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ ان کے علاج پر بے دریغ رقم خرچ کی جارہی ہے ۔ آنے جانے والے اصحاب سے روم کا کرایہ پوچھتے تھے ۔ پیس میکر کی قیمت جاننے کی کوشش کرتے تھے ۔ کہتے تھے ’’میں بھرپور زندگی جی چکا ہوں، کب تک زندہ رہوں گا ، آخر یہ ساری کوششیں کیوں کی جارہی ہیں‘‘۔ ایک مرحلے پر تو انہوں نے پیس میکر لگوانے سے بالکل انکار کردیا تھا ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک نے بالآخر بہ دقت تمام انہیں راضی کر لیا ۔ درمیان میں تین مرتبہ ایسے مواقع آئے جب انہیں اسپتال سے ڈسچارج کیا جانے والا تھا ۔ مجھ سے بار بار کہتے تھے کہ میں دہلی واپس چلا جاؤں۔

9 مارچ کو شام میں وہ پوری طرح ہشاش بشاش تھے ۔ پیس میکر بھی پوری طرح کام کر رہا تھا ۔ زاہد علی خاں اور مجھ سے ادبی ٹرسٹ کے سالانہ مشاعرے کے انعقاد کے بارے میں بات کی ۔ دفتر کے بارے میں زاہد علی خاں سے ضروری صلاح و مشورہ بھی کرتے رہے ۔ ڈاکٹر سدھیر نائک نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد یہ خوش خبری سنائی کہ انہیں اگلے دن 10 مارچ کو ڈسچارج کردیا جائے گا ۔ میں نے بھی اس حساب سے دہلی واپس جانے کا ریزرویشن کروالیا ۔ صبح صبح میں ہسپتال گیا تو اس وقت تک ڈاکٹر بی گوپال ریڈی کے بارے میں اخبار کا ذیلی اداریہ لکھ چکے تھے ۔ اداریہ مجھے دے کر کہنے لگے ’دفترجاکر اسے زاہد کو دے دو اور کہو کہ کسی کو بھیج کر اسپتال کا بل ادا کردیں‘‘۔ پھر مجھ سے کہا ’’تم چونکہ شام میں دہلی واپس جارہے ہو اس لئے دوبارہ اسپتال نہ آؤ، میں اب ٹھیک ہوچکا ہوں‘‘۔ میں ’’سیاست‘‘ آیا تو زاہد علی خاں نے فوراً اپنے مینجر کو اسپتال روانہ کیا ۔ میں ابھی گھنٹہ بھر بھی ’’سیاست‘‘ میں نہیں بیٹھا تھا کہ مینجر سیاست واپس آگئے اور اطلاع دی کہ جگر صاحب کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ہے اس لئے ڈاکٹروں نے انہیں آج ڈسچارج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے ا پنی روانگی منسوخ کردی ۔ مجھے ڈر تھا کہ میں شام میں اسپتال جاؤں گا تو وہ ضرور ناراض ہوں گے کہ میں دہلی کیوں نہیں گیا ۔ اس لئے میں اور ظہیر الدین علی خاں مل کر اسپتال گئے ۔ مجھے دیکھتے ہی حسب معمول ناراض ہوگئے کہ میں کیوں رُک گیا ۔ اتنے میں زاہد علی خاں اور عامر علی خاں بھی آگئے ۔ ان کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ تکلیف سے گزر رہے ہیں لیکن تکلیف کا ذکر کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔ رات میں دس بجے ہم سب سے کہا کہ ہم گھر چلے جائیں ۔ اگرچہ ہم کمرے سے باہر نکل آئے لیکن ہم سب تشویش میں مبتلا تھے۔ اسپتال کی انتظار گاہ میں میرے دوست عباس زیدی اور محمد تقی میرا انتظار کر رہے تھے ۔ عباس نے اصرار کیا کہ ہم لوگ کہیں چل کر رات کا کھاناکھالیں۔ پچھلے ایک مہینے میں میرا معمول ساہوگیا کہ رات کو دیر سے ایک بار اسپتال ضرور چلا جاتا تھا اور چپکے سے ان کے ملازم سے جگر صاحب کی خیریت پوچھ لیتا تھا ۔ میں حسب معمول گیارہ بجے اسپتال واپس ہوا تو دیکھا کہ جگر صاحب کا ملازم نرسنگ اوپر سے دوڑتا ہوا آرہا ہے ۔ کہنے لگا جگر صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں اور آپ کو فوراً اوپربلا رہے ہیں۔ میں کمرے میں گیا تو بائیں طرف اپنے پیٹ کو تھامے ہوئے تھے ، سخت تکلیف میں مبتلا تھے لیکن پورے سکون کے ساتھ بولے ’’آج میری طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب لگ رہی ہے۔ آج کی رات بڑی بھاری نظر آتی ہے۔ میں تمہیں رات میں روکنا نہیں چاہتا تھا لیکن پھر بھی تم رُک سکو تو اچھا ہے‘‘۔ اس جملے نے میرے سارے وجود کو ہلاکر رکھ دیا ۔ میں نے ڈاکٹر کو بلایا تو خفا ہوگئے کہ کیوں ڈاکٹروں کو پریشان کرتے ہو۔ اتنے میں ڈاکٹر سلمان وہاں آگئے ، نیند کا انجکشن دیا ۔ تکلیف اتنی ز یادہ تھی کہ بڑی مشکل سے آدھا پون گھنٹہ سو گئے ۔ بے چینی بڑھی تو میں نے پھر ڈاکٹر کو بلایا ۔ کہنے لگے ’’صبح میں ڈاکٹر سدھیر نائک آئیں گے تو وہ دیکھ لیں گے ، کیوں ڈاکٹروںکو پریشان کر رہے ہو‘‘۔ رات کے چار بجے کے بعد سے تکلیف ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی ۔ پونے چھ بجے جب ان کی حالت غیر ہونے لگی اور نرسیں انہیںگلوکوز دینے کیلئے شریانیں ڈھونڈنے لگیں تو انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئے نرسوں سے کہا :
“Thank you very much sister, now please stop this”

پھر میرا ہاتھ تھامتے ہوئے بڑے اعتماد کے ساتھ بولے ’’ظہیرؔ اور زاہدؔ کو فون کرکے بلالو اور کہو کہ مجھے گھر لے چلیں۔ زندگی سے میرا معاہدہ اب ختم ہوچکا ہے ۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے چھت کی طرف دیکھا اور بہ آواز بلند کہا ’’اللہ پاک میری مشکل آسان فرمادے اور مجھے اس عذاب سے نجات دلادے۔ اللہ پاک ، اللہ پاک‘‘۔ اس کے بعد ان کی زبان بند ہوگئی ۔ اللہ کو پکارنے کے بعد پھر انہوں نے کسی بشر سے بات نہیں کی ۔ ان کی سانسیں اُکھڑنے لگیں ۔ اس حالت میں انہیں Intensive Care Unit لے جایا گیا ۔ ڈاکٹر شاہد علی خاں ، ظہیر الدین علی خاں ، زاہد علی خاں ، عامر علی خاں اور ڈاکٹر سدھیر نائک بھی آگئے ۔ تنفس کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کوششیں شروع کردیں اور کچھ دیر بعد تنفس کا عمل بحال ہوگیا ۔ مجھ سے یہ دیکھا نہیں گیا ، میں چپ چاپ ICU سے باہر چلا آیا ۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ کسی انسان سے پھر بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ خدا سے رجوع ہوچکے تھے ۔ اگرچہ وہ صبح میں ہی دنیا سے اپنا ناطہ توڑچکے تھے اورزندگی سے اپنا معاہدہ فسخ کرچکے تھے لیکن ڈاکٹروں نے انہیں بچانے کی سہ پہر میں ڈھائی بجے تک پوری کوشش کی اور یوں حیدرآبادی تہذ یب کا ایک سچا علم بردار، ایک قلندر صفت اللہ صوفی صحافی اور ایک عظیم انسان ہم سے رخصت ہوگیا۔ (12 مارچ1997 )